برطانیہ اپنی معیشت کے ساتھ ساتھ یورپ کے اقتصاد کو بھی ڈبو رہا ہے
برطانیہ کی معاشی صورتحال بگڑتی جا رہی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ملک گیر ہڑتالوں میں شدت آئی تو کساد بازاری کی شدت میں اضافہ کم سے کم سن دو ہزار چوبیس تک جاری رہے گا۔
سحر نیوز/ دنیا: برطانیہ کی جدیدترین معاشی صورتحال کے بارے میں جاری ہونے والی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں ہڑتالوں کی بڑھتی شدت اور یورو زون میں اقتصادی تنزلی کے نتیجے میں برطانیہ میں کساد بازاری آئندہ سال بھی جاری رہ سکتی ہے۔ادھر برطانیہ کی مزدور یونینوں نے بھی مختلف شعبوں میں سرگرمیاں روک دی ہیں اور دو ہزار تیئس میں ہڑتال کی وسعت بڑھانے کی جانب سے بھی لندن کو خبردار کیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ برطانوی حکومت نے ایک جانب جنگی اخراجات میں کئی گنا اضافہ کیا ہے تو دوسری جانب خدماتی، تعلیمی اور طبی شعبے کے بجٹ میں کمی کرکے ثابت کردیا ہے کہ اسے ذرہ برابر عوام کی پرواہ نہیں ہے۔قابل ذکر ہے کہ نرسوں، ٹرین ڈرائیوروں، محکمہ ریلوے، سرحدی افواج اور محکمہ ڈاک کے کارکنوں کے علاوہ متعدد دوسرے شعبوں کے ملازمین نے ہڑتال کی نئی تاریخوں کا اعلان کردیا ہے۔
ان یونینوں نے اعلان کیا ہے کہ جب تک حکومت ان کے مطالبات منظور نہیں کرتی تب تک ہڑتال جاری رہے گی۔ ادھر بینک آف انگلینڈ کی جانب سے جاری شدہ اعداد و شمار کے مطابق، گذشتہ اکتوبر میں برطانیہ میں مہنگائی کی شرح بڑھ کر گیارہ اعشاریہ ایک فیصد تک پہنچ گئی جسے گذشتہ چالیس سال کا بدترین ریکارڈ قرار دیا گیا ہے۔ایک طرف رشی سونک کا یہ کہنا ہے کہ تنخواہیں بڑھانے کے نتیجے میں افراط زر میں بھی اضافہ ہوگا تو دوسری طرف برطانیہ کے سینٹرل بینک کے گورنر جیریمی ہنٹ نے متضاد بیان دیتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ مہنگائی کو کم کرنا اور عوام کی قوت خرید کو بڑھانا ان کی اولین ترجیح ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ موجودہ معاشی پالیسی کے نتیجے میں، برطانیہ کی اقتصادی صورتحال میں بہتری کی جانب سے بے یقینی بڑھتی جا رہی ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ بتایا جا رہا ہے کہ برطانیہ میں بے روزگار شہریوں کی تعداد میں لگاتار تیسرے مہینے بھی اضافہ ہوا ہے۔بڑھتی مہنگائی، ملازمین کی تنخواہوں کی گھٹتی قدر اور کنزرویٹیو حکومت کی پالیسیوں نے عوام کے سامنے احتجاجی مظاہروں اور ہڑتال کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں چھوڑا ہے۔بتایا جا رہا ہے کہ ہڑتال کے نتیجے میں صنعتی، خدماتی اور سرکاری مراکز کی کارکردگی گذشتہ دس سال کی بدترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ عوام کی موجودہ معاشی صورتحال کا براہ راست اثر عوام کی قوت خرید اور سیاحت کے شعبے پر مرتب ہوا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال کے دوسری شش ماہی میں، معاشی صورتحال سے پریشان برطانوی شہریوں کی بڑی تعداد نے اپنے سفر کا پلان ملتوی یا منسوخ کردیا ہے۔دوسری جانب یورپی یونین کے ایگزیکٹیو کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ یورو زون کے انیس رکن ممالک میں سن دو ہزار تیئیس کے دوران کساد بازاری جاری رہے گی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا ایک بڑی تباہی کی جانب گامزن ہے جسے گلوبلائزیشن یا عالمگیریت، جیوپالیٹکل، ٹیکنالوجی اور سماجیات کے مختلف شعبوں میں غلط تبیدیلیوں کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔یورو نیوز کی رپورٹ کے مطابق، یورپی یونین سے علیحدگی پر برطانوی عوام میں پچھتاوا بڑھتا جا رہا ہے اور لندن کے معاشی نظام کے ساتھ ساتھ تمام یورپی ممالک کے اقتصاد کا مستقبل بھی داؤ پر لگا ہوا ہے ۔