ہر ہفتے ایک اجتماعی قتل عام، امریکی گن کلچر کا نتیجہ
رواں سال کی ابتدا سے لیکر اب تک امریکہ میں قتل عام کا ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے۔ تقریبا ہر ہفتے ایک ایسا واقعہ ضرور رونما ہوا ہے جس میں بیک وقت متعدد جانیں اسلحہ لابی کی ہوس پر قربان ہوئی ہیں۔
سحر نیوز/ دنیا: امریکی ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا ہے کہ رواں سال کے ابتدائی ایک سو گیارہ دن میں، سترہ بار ماس فائرنگ کے واقعات رونما ہوئے ہیں جس میں اٹھاسی لوگوں کی جان گئی ہے۔ ان تمام واقعات میں قاتلوں نے مختلف نوعیت کی گنوں کا استعمال کیا ہے۔
گذشتہ ہفتے ریاست آلاباما کے ڈیڈویل شہر میں ایک سالگرہ کی تقریب میں شریک ہونے والے چار بچے ہلاک اور بتیس دیگر زخمی ہوگئے۔ ایک اور واقعہ اس وقت رونما ہوا جب جیل سے رہا ہونے والے ایک شخص نے اپنے گھر کے چار ارکان کو گولی مار کر قتل کردیا۔
ایسوشئیٹڈ پریس اور یو ایس اے ٹو ڈے کی مشترکہ ڈیٹا کے مطابق، سن دو ہزار چھے سے اب تک دو ہزار نو سو کے قریب امریکی اجتماعی قتل میں اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں یعنی تقریبا ہر ہفتے قتل عام کا ایک واقعہ رونما ہوا ہے ۔ سینڈی ہک پرومس تنظیم کے مطابق، ہر روز بارہ بچے بھی امریکہ میں گن کلچر کے بھینٹ چڑھ رہے ہیں اور اسی طرح بتیس بچے ان واقعات میں زخمی ہو رہے ہیں ۔ امریکی بچوں کی موت کی سب سے بڑی وجہ گنوں کا استعمال قرار دیا گیا ہے۔
امریکی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق فائرنگ کے نتیجے میں ہونے والی ہر دس ہلاکتوں میں ایک موت انیس سال سے کم عمر کے شہریوں کی ہو رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شوٹنگ کے واقعات میں بچوں کی ہلاکت کا امکان ان کے پانی میں ڈوب کر مرنے کے امکان سے پانچ گنا زیادہ ہے۔
قابل ذکر ہے کہ سن انیس سو نناوے میں کولمبائن اسکول میں ماس شوٹنگ کے بعد، تین لاکھ چالیس ہزار امریکی بچوں نے مسلحانہ تشدد کا براہ راست تجربہ کیا ہے۔ سن دو ہزار بائیس میں، چونتیس طلبا اور اسکول کا عملہ ہلاک ہوئے جبکہ تینتالیس ہزار امریکی اسکولوں میں کم از کم ایک بار گولی چل چکی ہے۔
امریکی اداروں کی جانب سے جاری شدہ ڈیٹا کے مطابق، چھیالیس لاکھ امریکی بچے ایسے گھروں میں رہ رہے ہیں جہاں گولیوں سے لیس کم سے کم ایک ہتھیار بلاحفاظت موجود ہے۔ یونیورسٹی میں زیر تعلیم لاطینی نژاد امریکیوں کو سفید فاموں کے مقابلے میں دو گنا زیادہ گن سے ہلاکت کا خطرہ درپیش ہے جبکہ سیاہ فام طلبا کو تین گنا زیادہ اسلحے سے اجتماعی قتل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ ان مسلحانہ حملوں میں نوے فیصد لڑکیاں ہلاک ہوئی ہیں۔
بفلو، نیویارک اور یوالڈی سمیت امریکہ کے متعدد شہروں میں ہر چند روز کے بعد ایسا ایک واقعہ رونما ہوجاتا ہے جس سے پورا امریکی سماج عزادار ہوجاتا ہے لیکن پھر بھی امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں اور اسلحہ لابی کا بول بالا رہتا ہے۔ امریکی صدور بظاہر ہتھیاروں کے استعمال کو محدود کرنے کے نعرے لگاتے ضرور ہیں لیکن عمل کے میدان میں ان کے اسلحہ ساز مالی حامیوں کی بات چلتی ہے۔