امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی طاقت کا اعتراف کر لیا
غاصب صیہونی حکومت کے وزیر اعظم کے دورہ واشنگٹن کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف بے بنیاد دعووں اور جھوٹے الزامات کے درمیان اس کی طاقت کا بھی اعتراف کیا۔
سحرنیوز/ایران: غاصب صیہونی وزیر اعظم کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایران بڑا طاقتور ملک ہے۔ جب ایک نامہ نگار نے ٹرمپ کے اس بیان پر ردعمل میں اُن سے پوچھا کہ کیا ایسے وقت میں کہ جب ایران بہت کمزور ہو چکا ہے تو کیا بہتر نہیں کہ اس کے ایٹمی مراکز پر حملہ کر دیا جائے؟ تو ٹرمپ نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ آپ یہ بات کہہ رہے ہیں مگر ایران ہرگز کمزور نہیں ہے بلکہ اتفاق سے بہت طاقتور ہے۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں امریکی صدر نے کہا کہ اگر ہم اس معاملے کو بغیر کسی جنگ کے ختم کر لیں تو بہت اچھا ہوگا۔ امریکی صدر سے جب ایران کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے ایران کے خلاف صدارتی میمو سے نفرت تھی، میں چاہتا ہوں کہ ایران کامیاب اور پرامن رہے، مجھے ایران کے خلاف کارروائی سے نفرت ہے۔ ٹرمپ نے ایرانی عوام سے براہ راست مخاطب ہو کر کہا کہ میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں ایک اچھے معاہدے کے لئے آمادہ ہوں، آپ غیر معمولی لوگ ہیں، مجھے ایک ایسے اچھے معاہدے کی امید ہے جس سے کسی قسم کا بحران کھڑا نہ ہو۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ امن چین کے خواہاں ہیں اور بس وہ یہ چاہتے ہیں کہ ایران ایٹمی اسلحہ نہ بنائے۔
![](https://media.sahartv.ir/image/4bxye2d9167d6a1tkh1_800C450.jpg)
ایران کے خلاف امریکی صدر کے مذکورہ دعوے ایسے حالات میں سامنے آئے ہیں کہ جب ایران بارہا یہ یاد دہانی کرا چکا ہے کہ وہ این پی ٹی معاہدے کا رکن ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی دفاعی ڈاکٹرائن میں کسی قسم کے ایٹمی اسلحے کا قائل نہیں ہے اور ساتھ ہی ملک کی اعلیٰ قیادت بھی ایٹمی اسلحوں کی ساخت، نگہداشت اور استعمال کو جائز نہیں سمجھتی۔ اس کے علاوہ سابق دور حکومت میں ایران کے خلاف ڈونلڈ ٹرمپ کا جارحانہ اور معاندانہ رویہ بھی ان کے دعووں کی تردید کرتا ہے جس میں انہوں نے واضح طور پر بین الاقوامی ضابطوں اور معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے مقصد سے غیر قانونی اقدامات کا سہارا لیا اور ایران کے ساتھ طے پانے والے بین الاقوامی جامع ایٹمی معاہدے کو تاریخ کا بدترین معاہدہ قرار دیتے ہوئے اُس سے نکلنے کا اعلان کر دیا۔