ایک افسوس ناک حقیقت
سڈنی حملے کے پیچھے موساد کیوں ہو سکتا ہے ؟ قرائن و دلائل حیرت انگیز ، عرب صحافی کا تجزیہ
آسٹریلیا کے سڈنی شہر میں ایک بھیانک حملہ ہوا ہے جس میں 12 سے زیادہ لوگوں کی جان چلی گئی۔ اس واقعات کا مختلف لوگ مختلف پہلوؤں سے جائزہ لے رہے ہيں۔ معروف عرب تجزیہ نگار عبد الباری عطوان نے ایک بے حد مختلف زاویہ سے سڈنی حملے کا جائزہ لیا ہے جو کافی دلچسپ اور ڈرا دینے والا ہے۔
سحرنیوز/دنیا: اتوار کو آسٹریلیا کے سڈنی شہر کے ایک ساحل پر "حنوکا" یہودی تہوار منانے والے دو ہزار سے زائد افراد پر خونخوار حملے میں 12 افراد ہلاک اور 29 زخمی ہوئےہیں ۔ اس حملے کے پیچھے اسرائیل اور اس کی ایک نئی سوچی سمجھی حکمت عملی ہونے کے خدشہ کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جا سکتا جس کا مقصد "مظلوم" اسرائیل کی شبیہ کو "دوبارہ حاصل " کرنا اور غزہ میں نسل کشی کی وجہ سے مکمل طور پر بوسیدہ ہو چکی "یہودی دشمنی" کی جھوٹی روایت کو دوبارہ زندہ کرنا ہو سکتا ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ اس طرح سے اسرائیل فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر آسٹریلیا کو سزا بھی دے سکتا ہے۔

یہودی دشمنی میں سب سے آگے اور یہودی مذہب کے سب سے بڑے دشمن خود صہیونیت ہے اور نیتن یاہو موجودہ دور میں صیہونینت کے اہم ترین نمائندوں میں سے ہیں۔ ان کے ہاتھ اور ان کی حکومت ستر ہزار سے زائد فلسطینی شہریوں کے خون سے رنگے ہیں، جن میں چالیس ہزار بچے شامل ہیں۔ انھوں نے دس لاکھ پچاس ہزار فلسطینیوں کو بے گھر کر دیا ہے، ان کے 95 فیصد سے زیادہ گھروں کو تباہ کر دیا ہے، امداد روک کر ایک بڑی تعداد کو بھوک سے موت کے منہ میں دھکیل دیا ہے، اور خوراک کی تقسیم کے مراکز کو فلسطینیوں کے لئے موت کا جال بنا دیا۔
نیتن یاہو نے در اصل اس حملے کے بعد آسٹریلیا کے وزیر اعظم اور ان کی حکومت پر الزام عائد کیا کہ انھوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم اور دو ریاستی حل کی حمایت کر کے اپنے ملک میں "یہودی دشمنی" کو ہوا دی ہے اور اس کے ساتھ ہی سڈنی حملے کی ذمہ داری ان پر عائد کی جس سے اگر غور کیا جائے تو اس حملے میں نیتن یاہو کے کردار کے شک کو تقویت ملتی ہے۔ نیتن یاہو نظر انداز کر رہے ہیں کہ ان کی ہدایات پر ان کی فوج نے غزہ کے ایک اسپتال میں پانچ منٹ سے بھی کم وقت میں پانچ سو سے زائد مریضوں، زخمیوں، ڈاکٹروں، نرسوں اور قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کو قتل کردیا اور دس منٹ کے اندر پانچ ہزار سے زیادہ لبنانی شہریوں کو قتل کیا، خواہ " پیجروں " کے قتل عام کی بات ہو یا بیروت کے جنوبی مضافات، بقاع اور جنوبی لبنان میں نسل کشی کے لئے کی جانے والی بمباری ہو۔

تاریخ گواہ ہے کہ صہیونیت کی تحریک نے یہودیوں کے قتل میں نازیوں سے تعاون کیا اور مصر و عراق میں سینما گھروں اور یہودی بستیوں کو اڑایا تاکہ انھیں دہشت زدہ کیا جا سکے اور وہ مقبوضہ فلسطین ہجرت پر مجبور ہو جائيں ۔ تو پھر ہمیں اس امکان پر حیرت کیوں ہو کہ وہ سڈنی یا دیگر مغربی دارالحکومتوں میں اس حملے کے پیچھے ہو سکتے ہیں تاکہ عربوں اور مسلمانوں پر انگلی اٹھائی جا سکے؟
غزہ میں نسل کشی اور قتل عام کے بعد اب دنیا کی اکثریت اسرائیل کے جھوٹے پروپیگنڈے سے آزاد ہو چکی ہے ۔ یہودی مذہب کے لاکھوں پیروکار اس صہیونی منصوبے اور اس کے قتل عام سے خود کو الگ کر رہے ہیں کیونکہ اب یہ ان کے لیے وجود کا خطرہ بن چکا ہے کیونکہ صیہونیوں کے جرائم ، پر امن یہودیوں کو اپنے اپنے معاشروں میں محفوظ زندگی کے امکانات کو کم کر رہے ہيں۔
ہم اس امکان کو مسترد نہیں کرتے کہ سڈنی کا یہ حملہ اسرائیل کی شبیہ کو بہتر بنانے کے منصوبے کی پہلی کڑی ہو سکتا ہے، اور نہ ہی ہم مستقبل قریب میں یہودی مذہب کے پیروکاروں پر اسی طرح کے دیگر حملوں کے امکان کو مسترد کرتے ہیں تاکہ اس طرح سے اسرائیل کے صیہونی حکام مظلومیت کے دعوے کو دوبارہ زندہ اور "یہودی دشمنی" کے ہتھیار کو دوبارہ استعمال کار سکیں۔
ہمیں فالو کریں:
Follow us: Facebook, X, instagram, tiktok whatsapp channel
حماس کی تحویل میں رہنے والے اسرائیلی قیدیوں کی اکثریت نے ان کے ساتھ تقریبا دو سال قید کے دوران کیے جانے والے اچھے سلوک کی تعریف کی۔ ان میں سے کسی کے ساتھ تشدد یا توہین نہیں کی گئی۔ انھوں نے اپنے محافظوں کی تعریف کی جنھوں نے محاصرے کے باوجود ان کے ساتھ کھانا تقسیم کیا بلکہ ان کے ساتھ اچھے اور انسانی تعلقات قائم کیے۔ ان محافظوں سے الگ ہوتے وقت کئی یہودی قیدی رو پڑےجبکہ اسرائیلی جیلوں میں ان کے عرب بھائیوں پر ہر قسم کی سختیاں کی جاتی ہیں اور ایسے ایسے غیر انسنانی مظالم کئے جاتے ہيں جن کے بارے میں سن کر بھی دل دہل جاتا ہے۔

یہی فرق ہے ہمارے اور ان کے رویہ میں، ہمارے عقیدے اور ان کے عقیدے میں۔ جو تربیت یافتہ کتوں کو قیدیوں پر تشدد کے لیے چھوڑدیتا ہے اور چالیس ہزار بچوں اور ان کے اہل خانہ کو قتل کرنے اور بھوکا مار کر لطف اندوز ہوتا ہے، وہ سڈنی یا دنیا کے کسی دوسرے مقام پر یہودی تہوار منانے والوں پر حملے کے لیے قاتلوں کو کرایہ پر حاصل کرنے میں بھی نہيں ہچکچائے گا۔ چنانچہ غزہ میں "ابو شباب" گروپ اور لبنان، ایران اور بعض دیگر ممالک میں صیہونیوں کے ایجنٹوں پر مشتمل گروہوں کے واقعات ہمارے اس دعوے کی تصدیق کرتے ہیں۔
نیتن یاہو غزہ، غرب اردن، لبنان، یمن اور ایران میں اپنی تمام جنگوں کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں، اور اب وہ انھیں جاری رکھنے اور ان میں اضافے کے لیے بہانے تلاش کر رہے ہیں۔ اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ سڈنی حملہ انہی بہانوں میں سے ایک ہو، خاص طور یہ خیال اس لئے بھی اور مضبوط ہو رہا ہے کہ نیتن یاہو نے حملے کی مذمت کرنے والے ایران پر ہی اس حملے کا الزام عائد کر دیا۔