Oct ۲۳, ۲۰۱۸ ۱۵:۴۱ Asia/Tehran
  • اردن کو اسرائیل کی دھمکیاں

صیہونی حکومت کے وزیر زراعت اوری ارئیل نے پیر کی رات اعلان کیا ہے کہ اگر اردن الباقورہ اور الغمر کے علاقوں کو واپس لے گا تو تل ابیب ، اردن کے دارالحکومت امان کا پانی بند کر دے گا

اوری ارئیل نے پیر کو مزید کہا کہ اگرالغمر اور الباقورہ کے علاقوں کے سلسلے میں اردن اور صیہونی حکومت کے درمیان امن معاہدہ ختم ہوا تو تل ابیب امان کا پانی نصف سے بھی کم کردے گا-اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم نے اتوار کو بڑے پیمانے پرعوامی مطالبات کے پیش نظر اردن کی الباقورہ اور الغمر کی زمینوں سے استفادے کے لئے صیہونی حکومت اور اردن کے درمیان ساز باز معاہدے کے اضافی پروٹوکول کو ختم کرنے کی خبر دی ہے - انھوں نے تاکید کے ساتھ کہا کہ اردن نے انیس سو چورانوے میں اسرائیل کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے کے تحت اسرائیل کو الباقورہ و الغمر علاقوں کی زمین سے استفادے کی اجازت دی تھی جسے اب وہ واپس لے رہا ہے- شاہ اردن کے الباقورہ و الغمر کی اراضی صیہونی حکومت کو کرائے پر دینے کے معاہدے کی منسوخی کے فیصلے سے اس ملک کے عوام کے درمیان خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے - گذشتہ سنیچر کو بھی اردن کے عوام نے مظاہرے کر کے امان حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ الباقورہ اور الغمر کی زمینوں کو صیہونی حکومت سے واپس لے لے- اگرحکومتیں اورعرب ممالک کے نمائندے اسرائیل کی توسیع پسندیوں کے مقابلے میں مفید و غیرنمائشی فیصلے کریں تو ان ملکوں کے عوام اور حکومتوں کے درمیان فاصلے کو کم کرنے اور اپنی قانونی حیثیت مضبوط بنانے کی زمین ہموار کر سکتے ہیں- حکومت اردن نے انیس سو چورانوے میں صیہونی حکومت سے وادی عربہ کے زیرعنوان ایک امن معاہدہ کیا تھا تاہم تقریبا پچیس سال گذرنے کے باوجود اب بھی حکومت اردن اپنے تمام علاقوں پر اپنا اقتدار قائم نہیں کرسکی ہے-  مذکورہ معاہدے پر دستخط کے بعد اب بھی شمالی اردن میں الباقورہ کا علاقہ صیہونی حکومت کے تسلط میں ہے اور اس کا دعوی ہے کہ یہ علاقہ اور الغمر کا علاقہ اسی کی ملکیت ہے- اردن مصر کے بعد دوسرا عرب ملک ہے کہ جو صیہونی حکومت کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کے بعد صیہونی حکومت کے ساتھ باقاعدہ سیاسی و اقتصادی تعلقات استوار کئے ہوئے ہے- ان تعلقات کا نتیجہ صیہونی حکومت کی جانب سے خطرات ، دھمکی ، غنڈہ ٹیکس کی وصولی ، توسیع پسندی اور اردن کے آبی ذخائر پر تسلط میں اضافے کے سوا کچھ نہیں نکلا ہے-

اردن اور صیہونی حکومت کے درمیان سازباز معاہدے کے نتائج نے اس حقیقت کو پہلے سے زیادہ نمایاں کردیا ہے کہ اسرائیل کے مقابلے میں ساز باز کے رویے نے اس حکومت کو توسیع پسندی اور غاصبانہ قبضے کو مضبوط بنانے کے ساتھ ہی مزید جری و گستاخ بھی بنا دیا ہے- بہرحال اسرائیل کے ساتھ بعض معاہدوں پر نظرثانی کے امان حکومت کے اقدامات نے صیہونی حکومت کو سخت تشویش میں مبتلا کردیا ہے- اہم نکتہ یہ ہے کہ اسرائیل کہ جو مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں اسلامی بیداری کی نئی لہر میں اپنی تنہائی کوبڑھتا ہوا دیکھ رہا ہے اس وقت اردن کے ساتھ اپنے تعلقات میں بھی مسائل و مشکلات سے دوچار ہوگیا ہے- صیہونی حکومت اردن کو عرب ممالک میں داخل ہونے کا پرامن دروازہ سمجھتی ہے- صیہونی حکومت کے ساتھ اردن کے تعلقات کمزور پڑنے سے عالم عرب میں داخل ہونے کا دروازہ بھی بند ہوسکتا ہے کہ جو اسرائیل کے لئے علاقائی توازن کو بھی بگاڑسکتا ہے- ان حالات میں اسرائیل ، دھمکیوں کے ذریعے اس کوشش میں ہے کہ اپنی غنڈہ ٹیکس وصول کرنے کی پالیسی سے اردن کے حکام کو اپنی توسیع پسندی کے سامنے جھکنے پر مجبور کردے - اس طرح کے رویے سے بیت المقدس کی غاصب حکومت کی حقیقت و ماہیت سامنے آنے کے ساتھ ہی اردن کے عوام کے موقف کے صحیح ہونے کی بھی عکاسی ہوتی ہے جو اس تسلط پسند حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو پوری طرح ختم کرنا چاہتے ہیں- 

ٹیگس