Oct ۲۲, ۲۰۱۸ ۱۳:۴۷ Asia/Tehran
  • یورپی ملکوں کی جانب سے خاشقجی کے قتل کی مذمت

برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ بیان میں مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی شدید مذمت کی ہے۔

فرانسیسی وزیر خارجہ ژان ایو لے دریان، برطانوی وزیر خارجہ جیرمی ہنٹ اور جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے اپنے مشترکہ بیان میں اعلان کیا ہے کہ سعودی حکومت کے مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی کوئی توجیہ پیش نہیں کی جاسکتی۔

تینوں یورپی ملکوں کے وزرائے خارجہ نے جمال خاشقجی کے قتل کے طریقہ کارکے بارے میں سعودی عرب کی جانب سے پیش کی جانے والی وضاحت کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قتل کی فوری اور درست تفصیلات منظرعام پر لائے جانے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں تمام اقدامات بروئے کار لائے جانے چاہئیں۔

جرمن چانسلرانجیلا مرکل نے بھی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اس قتل کیس کے بارے میں جب تک تمام شبہات دور نہیں ہو جائیں گے سعودی عرب کو اسلحے کی سپلائی نہیں کی جائے گی۔ امریکہ کی خارجہ تعلقات کونسل کے چیئرمین رچرڈ ہاس نے بھی ٹوئٹ کیا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے بارے میں امریکہ کی خارجہ پالیسی میں اصل ترجیح، ہتھیاروں کی سپلائی پر بندش اور جنگ یمن کے خاتمے کے لئے اس تباہ کن جنگ کے بارے میں ٹرمپ حکومت کی پالیسیوں کی شفافیت اورایران کے سلسلے میں سعودی عرب کو جارحانہ رویے سے باز رکھے جانے کو حاصل ہونی چاہئے۔ انھوں نے تاکید کی کہ سعودی عرب کے لئے واشنگٹن کی حمایت کے تناظر میں کلین چٹ کا دور اب ختم ہوجانا چاہئے۔ اس لئے کہ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان نے خود کو زیادہ ہی بڑھا چڑھا کرپیش کیا ہے چہ جائیکہ وہ کسی حمایت کے مستحق قرار پائیں۔ امریکی سینیٹ کے ڈیموکریٹ رکن مارٹن ہینریک نے بھی مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے ردعمل میں سعودی عرب کے تیل پر پابندیاں عائد کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ امریکہ کے اس سینیٹر نے اس سلسلے میں امریکی صدرٹرمپ کے محتاط ردعمل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ سعودی عرب، یہ سمجھتا ہے کہ ٹرمپ کی حمایت کی بدولت وہ قتل کیس کے نتائج سے بچ نکل سکتا ہے بنابریں ریاض پر یہ ثابت کئے جانے کی ضرورت ہے کہ اسے کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے۔

البتہ امریکی وزیرخزانہ اسٹیو منوچین نے سعودی عرب کی جانبداری کرتے ہوئے خاشقجی قتل کیس سے متعلق ریاض کی وضاحت کو ناکافی قرار دیا ہے تاہم انھوں نے  کہا ہے کہ سعودی عرب کے خلاف پابندیوں کی بات کرنا ابھی جلدی ہو گی۔ امریکی وزیر خزانہ کا یہ بیان ایسی حالت میں سامنے آیا ہے کہ ریپبلکن سینیٹر مارکو ربیو نے بھی سعودی عرب کے خلاف پابندیاں عائد کئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔

آسٹریا کی پارلیمنٹ کے خارجہ پالیسی کمیشن کے چیئرمین ایڈریئس شیڈر نے بھی یورپی یونین سے اپیل کی ہے کہ خاشقجی قتل کیس کی بنا پر سعودی عرب کا بائیکاٹ کیا جانا چاہئے۔ مخالف صحافی جمال خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی عرب کے قونصل میں داخل ہوئے تھے جس کے بعد ان کی گمشدگی کی خبر آئی تھی اور پھر انہیں بے دردی کے ساتھ قتل کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے - اس درمیان سعودی عرب نے اٹھارہ روز کے بعد ایسی حالت میں کہ اس سے قبل تک وہ یہ دعوی کر رہا تھا کہ جمال خاشقجی قونصل خانے سے باہر نکل گئے تھے ہفتے کی صبح دعوی کیا کہ قونصل خانے میں ہونے والے جھگڑے کے دوران جمال خاشقجی کا قتل ہو گیا۔ چنانچہ سعودی عرب کے اس وضاحتی بیان کو دنیا کے بیشتر ملکوں اور عالمی اداروں نے مسترد کر دیا ہے اور اس وضاحت کو ناکافی اور ناقابل قبول قرار دیا ہے۔

ٹیگس