استبداد و بدعنوانی سعودی عرب کے لئے آل سعود کی حکومت کے نتائج
سعودی عرب میں آل سعود کی بدعنوانی اور ظلم و استبداد میں شدت پر رائے عامہ ، ذرائع ابلاغ اور قانونی و سماجی حلقوں میں بڑے پیمانے پر ردعمل سامنے آیا ہے اور آل سعود پر ہونے والی تنقیدوں اور احتجاج کا دائرہ مغربی حلقوں اور ذرائع ابلاغ تک پہنچ گیا ہے جو عموما آل سعود کے اقدامات پر خاموش رہتے ہیں-
اس سلسلے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سعودی عرب میں سرگرم سماجی کارکنوں کو سخت سزائیں سنائے جانے پر تشویش ظاہر کی ہے-
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سعودی عرب میں ایک سماجی کارکن کو دس سال قید کی سزا سنائے جانے کو اس ملک میں آزادی بیان کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا-
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب کی سیاسی و شہری حقوق کی یونین کے گیارہ بانی ارکان میں سے ایک عبدالکریم خضر کو جو اب تک جیل میں تھے انسانی حقوق اور سیاسی اصلاحات کے مطالبے کے باعث سزا سنائی گئی ہے-
خضر کو جون دوہزارتیرہ میں آٹھ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن اس سزا پر عمل درآمد روک دیا گیا تھا-
سعودی فعال شخصیتوں کے مطابق خضر ایسے کارکن ہیں جنھیں حال ہی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سزا سنائی ہے-
جیمز لینچ نے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے لئے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے پروگراموں کے بارے میں کہا کہ سعودی عرب ، انسانی حقوق کے حامیوں کوخوف زدہ کرنے اور انھیں جیل میں ڈالنے کے لئے انسداد دہشت گردی کے قانون سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ مایوس کن پیغام دے رہا ہے کہ جو بھی اپنے عقاید و خیالات کا اظہار کرے گا اسے ختم کر دیا جائےگا-
یہ ایسی حالت میں ہے کہ برطانوی اخبار اینڈیپنڈنٹ نے بھی ایک رپورٹ میں سعودی عرب میں بھاری مقدار میں منشیات کے استعمال اور جنسی بے راہ روی سمیت بڑے پیمانے پر سماجی بدعنوانیوں کی خبر دی ہے کہ ان بدعنوانیوں کو بڑھاوا دینے والوں میں آل سعود سے وابستہ افراد اور شہزادے ہی پیش پیش ہیں -
گذشتہ برسوں میں سعودی عرب کے عوام کے خلاف اس ملک کی استبدادی حکومت کے اقدامات تیز ہوئے ہیں-
قابل ذکر ہے کہ آل سعود، سن دوہزارگیارہ میں سعودی عوام کے حکومت مخالف پرامن احتجاج شروع ہونے کے بعد سے ہی اپنی کچلنے والی پالیسیاں تیز کر کے اس ملک میں عوامی تحریک کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے -
قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب میں پریس کی آزادی ، مختلف سیاسی جماعتیں اور انتخابات جیسی عوامی حکمرانی کی کوئی بھی علامت نہیں پائی جاتی-
یہ ایسی حالت میں ہے کہ سعودی عرب میں سیاسی اقدامات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ آل سعود میں اقتدار کی منتقلی سے بھی استبدادی اصولوں پر مبنی اس ملک کی ابتدائی سیاسی حکومت کی مجموعی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی-
سعودی حکمرانوں کے ہاتھوں بڑے پیمانے پر شہری حقوق کا نظرانداز کیا جانا اور آل سعود کی جانب سے جمہوری اصولوں کی شدید مخالفت اس بات کا باعث بنی ہے کہ سعودی عرب سیاسی اور سماجی لحاظ سے ایک ترقی مخالف ملک کی حیثیت سے پہچانا جائے کہ جس کا نظام قرون وسطی کے قوانین کے مطابق چلایا جاتا ہے۔
سعودی معاشرے پر ایک نگاہ ڈال کر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ سعودی معاشرہ، انحرافی افکار کے حامل وہابیوں کی حکومت کے زیر سایہ ایسا معاشرہ ہے کہ جو تشدد پسند، مجرم اور سماجی بدعنوانی میں غرق ہے-
اس سلسلے میں سعودی عرب کے انسداد بدعنوانی کے ادارے کے سربراہ نے بھی ابھی کچھ دنوں پہلے اعتراف کیا ہے کہ اس ملک کے تقریبا ستر فیصد عوام حکام کی مالی و دفتری بدعنوانی بڑھنے سےناراض ہیں اور بنیادی اصلاحات کے خواہاں ہیں-
سیاسی کارکنوں کا خیال ہے کہ سعودی شہزادوں کی دین کی آڑ میں مختلف طرح کی مالی و دفتری بدعنوانی نے ملک کی معیشت کو ناگوار حالات سے دوچار کر دیا ہے-
اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب پر آل سعود کی حکومت کا نتیجہ اس ملک کو سیاسی ، اقتصادی اور سماجی بحرانوں میں مبتلاء کرنے کے سوا کچھ نہیں نکلا ہے اور ان حالات میں اعداد و شمار سعودی عوام کے شہری حقوق سے محرومی اور ملک میں جرائم و بدعنوانی کی شرح میں اضافے سمیت تمام میدانوں میں سماجی حالات خراب ہونے کی عکاسی کرتے ہیں-