شام کے پناہ گزینوں کے بارے میں امریکہ میں سیاسی کشمکش
شام کے پناہ گزینوں کا مسئلہ امریکہ میں ایک نئی سیاسی کشمکش میں تبدیل ہو چکا ہے۔ امریکہ کے ایوان نمائندگان کے سربراہ پال رایان نے امریکہ سمیت دنیا کے تمام ممالک سے سارے شامی پناہ گزینوں کو نکالے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کے اکثر گورنروں نے کہا ہے کہ وہ شام کے پناہ گزینوں کو بسانے پر مبنی فیڈرل حکومت کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں امریکی صدر باراک اوباما نے اس مطالبے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ واضح سی بات ہے کہ ری پبلیکن پارٹی کو امریکہ آنے والے یتیم بچوں اور بیوہ عورتوں سے خوف لاحق ہے۔
باراک اوباما نے اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ امریکہ میں پناہ لینے والوں کی کڑی نگرانی کی جائے گی کہا کہ وہ اپنے فیصلے جذبات میں آکر یا ان خطرات کو سامنے رکھ کر نہیں کرتے ہیں جن کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔
پیرس میں جمعے کے دن رونما ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کے بعد یورپ اور امریکہ میں شام کے پناہ گزینوں کی موجودگی کے باعث خوف و ہراس پھیل چکا ہے۔
پیرس میں ایک دہشت گرد کی لاش کے پاس شام سے تعلق رکھنے والا ایک پاسپورٹ ملا ہے جس کی وجہ سے یورپ کے بعض حکام نے شام کے پناہ گزینوں کی موجودگی کے سلسلے میں کچھ پابندیاں عائد کئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔
البتہ امریکہ میں سکونت اختیار کرنے کا ارادہ رکھنے والے شام کے پناہ گزینوں کی تعداد یورپ میں پناہ لینے والوں کی نسبت بہت کم ہے۔
اب تک شام کے فقط ایک ہزار پانچ سو شہری امریکہ میں داخل ہوئے ہیں۔
امریکی حکومت نے رائے عامہ اور یورپی اتحادیوں کے دباؤ میں آکر اعلان کیا ہے کہ وہ دو برسوں کے دوران شام کے دس ہزار افراد کو اپنے ملک میں پناہ دے گی۔
اس کے باوجود پناہ گزینوں کی یہ کم تعداد بھی امریکہ میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروہوں کی تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔
ری پبلیکن پارٹی نے سنہ دو ہزار سولہ کے صدارتی انتخابات کے لئے اپنی ساری توجہ غیر قانونی تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے مسئلے پر مرکوز کر دی ہے۔ ان کو اس بات کی امید ہے کہ وہ نسل پرستانہ رجحانات اور اغیار کی مخالفت کو ہوا دے کر آئندہ انتخابات میں اپنی کامیابی کے امکانات کو بڑھا سکتے ہیں۔
امریکہ کے آئندہ انتخابات کے بعض صدارتی امیدواروں نے غیر قانونی تارکین وطن کو ملک سے نکال کر امریکہ اور میکسیکو کے درمیان ایک سیکورٹی دیوار کی تعمیر کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
اس کے مقابلے میں امریکہ میں لبرل دھڑے کا خیال ہے کہ تارکین وطن اور پناہ گزینوں سے متعلق ری پبلیکن پارٹی کے منصوبوں سے امریکہ کے کثیر القومی نظام کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور اس سے اقتصادی میدان میں برے اثرات مرتب ہوں گے۔
اس کے علاوہ اگر امریکہ نے شام کے بے گھر افراد کو پناہ دینے سے انکار کیا تو یورپی رائے عامہ کےنزدیک اس کی ساکھ بھی خراب ہو جائے گی۔ یورپ کی رائے عامہ کا خیال ہے کہ شام سے متعلق امریکہ کی پالیسیاں ہی شام میں جنگ شروع ہونے اور یورپ کی جانب شام کے پناہ گزینوں کے سیلاب امڈ آنے کا باعث ہیں۔
اس لئے یورپ والوں کو توقع ہے کہ امریکہ نہ صرف یہ کہ وہ شام کے موجودہ قلیل تعداد پر مشتمل پناہ گزینوں کو اپنے ملک سے نہیں نکالے گا بلکہ وہ اس ملک کے شہریوں کو پناہ دینے کے سلسلے میں مزید اقدامات انجام دے گا۔