دہشت گردی کے خلاف عالمی اتحاد اور دوغلی پالیسیاں
-
دہشت گردی کے خلاف عالمی اتحاد اور دوغلی پالیسیاں
شام کے صدر نے کہا ہے کہ جب تک یورپ آل سعود کی حمایت کرتا رہے گا تب تک دہشت گردی کے خلاف وسیع عالمی اتحاد کی تشکیل بعید نظر آتی ہے۔
شام کے صدر بشار اسد نے جمہوریہ چیک کے سرکاری ٹیلی ویژن سے گفتگو میں کہا ہے کہ جب اتحاد کی طرف سے دہشت گردی کے سب سے بڑے حامی آل سعود کی براہ راست حمایت کی جائے گی تو ایسی صورتحال میں دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔
بشار اسد نے ترکی کی طرف سے روس کے طیارے کو مار گرانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں پر روس کے حملوں سے شام میں طاقت کے توازن میں واضح تبدیلی آئی ہے جو ترکی کے لئے قابل قبول نہیں تھی لہذا صدر رجب طیب اردوغان جذبات کی رو میں بہہ گئے۔
دہشت گردی کے خلاف اتحاد کی تشکیل کے حوالے سے مغرب بالخصوص امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کی اعلان شدہ پالیسی اور سعودی عرب اور ترکی کے مواقف میں واضح تضاد نظر آرہا ہے۔ دہشت گردوں نے جب یورپ کے مرکز فرانس میں سات مختلف جگہوں پر بیک وقت حملے کئے تو مغرب کی اعلان شدہ پالیسی میں بڑی تبدیلی آگئی۔ دہشت گردی سے متاثرہ ملک فرانس کے صدر نے پیرس میں ہونے والے واقعات کے فورا بعد واشنگٹن اور اس کے بعد ماسکو کا دورہ کیا۔ روس کادہشت گردی کے مقابلے کے حوالے سے موقف واضح اور شفاف ہے ۔
فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے ایسے عالم میں امریکہ کا دورہ کیا اور صدر باراک اوباما سے ملاقات کی کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف اتحاد کی تشکیل کے بانی کی حیثیت سے گذشتہ ڈیڑھ سال سے شام اور عراق میں صرف داعش کی دہشت گردی کا تماشہ دیکھ رہا ہے ۔ دہشت گردی بالخصوص داعش کے خلاف جنگ کے حوالے سے مغرب بالخصوص امریکہ کے قول و فعل میں واضح تضاد ہے اور فرانس میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے اور داعش کا نفوذ بھی اسی دوغلی پالیسی کا نتیجہ ہے ۔
امریکہ ایک طرف داعش کے خلاف جنگ کا وسیع پروپیگنڈہ کرتا ہے جب کہ دوسری طرف دہشت گردی کو اچھی اور بری دہشت گردی میں تقسیم کرکے دہشت گرد گروہوں کو ہتھیار فراہم کرتا ہے اور شام میں باغیوں اور حکومت مخالف نام نہاد اعتدال پسندوں کی مالی اور اسلحہ جاتی مدد کرتا ہے اور انہیں کھلم کھلا فوجی تربیت دیتا ہے اس کے علاوہ امریکہ سعودی عرب کا ، کہ جسے خطے میں دہشت گردی کا سب سے بڑا حامی سمجھا جاتا ہے، اسٹریٹیجک پارٹنر ہے۔ اس کے علاوہ امریکی اسلحہ سعودی عرب کے ذریعے دہشت گردوں تک پہنچتا ہے۔
فرانس دہشت گردی کے حوالے سے مغرب کی دوغلی پالیسیوں کا شکار ہوا ہے اور یوں بھی اس طرح کی منافقانہ پالیسیوں پر بھروسہ کرکے دنیا کو امن و امان کا تحفہ نہیں دیا جاسکتا ۔
مغرب جب تک دہشت گردی کے خلاف نیک نیتی پر مبنی اقدامات انجام نہیں دیتا اور جب تک دہشت گردوں کے نظریاتی اور مالی حامی کی حیثیت سے آل سعود کی حمایت کا سلسلہ بند نہیں ہوتا مغرب کی طرف سے شام میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس کے لئے وسیع اتحاد کی تشکیل کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ۔
جیسا کہ شام کے صدر نے جمہوریہ چیک کے سرکاری ٹیلی ویژن سے گفتگو میں اس بات پر تاکید کی ہے کہ شام میں امن و سلامتی کی بحالی کے لئے فرانس ، امریکہ ، برطانیہ ، سعودی عرب ،قطر اور چند دوسرے ممالک کو دہشت گردی کی حمایت ختم کرنا ہوگی ۔