شام میں مغرب کی ناکام حکمت عملی پر بشار اسد کی تنقید
شام کے صدر بشار اسد نے علاقے میں دہشت گردی کے خلاف مہم کے دعویدار بعض ملکوں کے فوجی اقدامات کو ناکام قرار دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ دمشق، بحران شام کے حل کے لئے تمام شامی گروہوں کے ساتھ مذاکرات کا خیر مقدم کرتا ہے۔
شام کے صدر بشار اسد نے آسٹریا کے اخبار دائی پریسے سے خصوصی گفتگو میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ دہشت گردی کے خلاف مہم، ایک باقاعدہ اور پائدار اصول پر استوار ہونی چاہئے، کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف مہم سے متعلق مغربی اور علاقے کے بعض ملکوں کی پالیسی، غیر جانبدارانہ اور حقیقت پسندانہ نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی زیر قیادت داعش مخالف نام نہاد بین الاقوامی اتحاد، دہشت گردانہ اقدامات کو روکنے میں موثر واقع نہیں ہوا ہے۔
بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق شام میں امریکہ کی زیر قیادت دہشت گردی کے خلاف تشکیل پانے والے نام نہاد بین الاقوامی اتحاد کے گذشتہ ڈیڑھ برس کے حملوں میں، نہ صرف یہ کہ داعش جیسے دہشت گرد گروہ، ختم یا کمزور نہیں ہوئے بلکہ ان دہشت گرد گروہوں کے وحشیانہ اقدامات کا دائرہ بھی مزید وسیع اور ان گروہوں کے ہاتھوں تیل کی برآمدات و اسمگلنگ میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
شام کے صدر نے دہشت گرد گروہوں کے لئے بعض ملکوں کی جانب سے فنڈ کی فراہمی اور مالی مدد اور ان گروہوں کو انتہا پسند اور اعتدال پسند گروہوں میں تقسیم کئے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہی پالیسی، دیگر علاقوں خاص طور سے مغرب میں دہشت گرد گروہوں کا اثر و رسوخ پیدا ہونے کا باعث بنی ہے۔
بشار اسد نے شام کی آزادی کے تحفظ اور اپنے ملک کے بحران کے حل کے لئے شام کے تمام سیاسی گروہوں کے ساتھ مذاکرات سے متعلق دمشق کی دلچسپی پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ شام، ایک آزاد و قومی اقتدار اعلی کا حامل ملک ہے اور اس بات کا فیصلہ، صرف شامی عوام ہی کر سکتے ہیں کہ ان کے ملک کا صدر اقتدار سے ہٹ جائے یا باقی رہے۔
دہشت گرد گروہوں کی حمایت کے نتائج، شام میں دہشت گردوں کے خلاف یکطرفہ اقدامات اور مغربی اور علاقے کے بعض ملکوں کی جانب سے اقتدار سے انھیں ہٹائے جانے پر اصرار کے بارے میں بشار اسد کا بیان، ایسی حالت میں سامنے آیا ہے کہ شام کے بارے میں بین الاقوامی اجلاس کے انعقاد سے قبل، جو دو ہفتے قبل نیویارک میں اور اقوام متحدہ کے نمائندے کی شرکت سے منعقد ہوا، ریاض میں شام کے مسلح مخالفین نے بھی سعودی عرب کی دعوت پر ایک اجلاس تشکیل دیا۔ جبکہ ریاض اجلاس، ویانا اجلاسوں کے بیانات کے بالکل منافی تھا جن میں بحران شام کو سیاسی طریقے سے حل کئے جانے پر تاکید کی گئی ہے۔
ریاض اجلاس جیسے اقدامات سے نہ صرف یہ کہ بحران شام کے حل میں کوئی مدد نہیں ملی ہے بلکہ اس قسم کے اقدامات سے بحران شام کے حل کے لئے انجام پانے والی بین الاقوامی کوششیں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔
دمشق حکومت سے ہم آہنگی کے بغیر دہشت گرد گروہوں کے خلاف مہم کے بہانے شام پر فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے حملوں کا آغاز اور ریاض میں حکومت شام مخالف مسلح گروہوں کے اجلاس کا انعقاد، حالیہ ہفتوں کے دوران شام کے امور میں بیرونی مداخلت کا ایک نمونہ ہے۔
شام کی موجودہ صورت حال سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ جب تک شام میں داعش، القاعدہ، جبہۃ النصرہ اور احرار الشام جیسے دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیاں اور ان کی حمایت جاری ہے، بحران شام کے لئے سیاسی راہ حل تلاش کرنا ایک دشوار کام ہے۔
شام میں غیر تعمیری و تباہ کن مداخلت کا سلسلہ ایسی حالت میں جاری ہے کہ حکومت دمشق نے بارہا اعلان کیا ہے کہ دہشت گرد گروہوں کے لئے اگر ہتھیاروں کی مدد اور فنڈ کی فراہمی بند ہوجائے تو مختصر مدت میں ان تمام دہشت گرد گروہوں کا قلع قمع کیا جاسکتا ہے۔