شیخ باقر نمر کی شہادت آل سعود حکومت کی سیاسی غلطی
سعودی عرب کے اہل تشیع کے رہنما آیت اللہ نمر باقر نمر کو سزائے موت دینے پر مبنی آل سعود کے ظلم کے خلاف علاقائی اور عالمی سطح پر وسیع پیمانے پر رد عمل ظاہر کیا گیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اتوار کی صبح فقہ کے درس خارج میں آیت اللہ نمر باقر نمر کی شہادت اور ان کا خون ناحق بہائے جانے کو آل سعود حکومت کی سیاسی غلطی قرار دیا۔ آپ نے آزادی، جمہوریت اور انسانی حقوق کے دعویداروں کی خاموشی اور ان کی جانب سے آل سعود حکومت کی، کہ جو صرف تنقید اور احتجاج کی بناء پر خون بہاتی ہے ، حمایت کئے جانے پر شدید تنقید کی اور فرمایا کہ عالم اسلام اور ساری دنیا کو اس سلسلے میں اپنی ذمےداری کا احساس کرنا چاہئے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ اس مظلوم عالم دین نے نہ لوگوں کو مسلح اقدام پر اکسایا تھا اور نہ ہی خفیہ طور پر کوئی سازش کی تھی بلکہ ان کا واحد کام علانیہ تنقید نیز دینی غیرت اور حمایت پر مبنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تھا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ جو لوگ نیک نیتی کے ساتھ انسانیت کی تقدیر، انسانی حقوق کی سرنوشت اور عدل و انصاف میں دلچسپی رکھتے ہیں انہیں ان مسائل کی پیروی کرنی چاہئے اور اس صورتحال سے بے اعتنائی نہیں برتنی چاہئے۔
آل سعود کے اس جرم کو ایک زاویہ نگاہ سے خطے میں سعودی عرب کے اثر و رسوخ کی تقویت نیز تشدد اور طاقت کے استعمال کی پالیسی کے ساتھ ملکی اور علاقائی مخالفین اور ناقدین کو راستے سے ہٹانے پر مبنی منصوبے کا تسلسل سمجھا جا سکتا ہے۔
شاہ عبداللہ کی ہلاکت اور شاہ سلمان کے ہاتھ میں سعودی عرب کا اقتدار آنے کے بعد یہ ملک سیاسی تبدیلیوں کا شکار ہوگیا ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ شاہی خاندان میں اقتدار کی رسہ کشی بھی جاری ہے۔ شہری حقوق کے مطالبے ، امتیازی سلوک کے خلاف بڑھتے ہوئے اعتراضات، شہریوں کے حقوق کی کھلے بندوں خلاف ورزی اور جمہوری حکومت کے فقدان کی وجہ سے سعودی عرب کے حکام نے تشدد کی پالیسی پر وسیع پیمانے پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔ لیکن سعودی عرب کے حالات اس سے کہیں زیادہ خراب ہو چکے ہیں کہ دہشت گردی کے بے بنیاد الزامات لگانے کے ساتھ مخالفین اور ناقدین کے سر قلم کرنے یا اپنے ملک کے داخلی امور میں دوسرے ممالک کی مداخلت کا الزام لگانے سے ان پر قابو پایا جا سکتا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب، بحرین اور یمن میں بھی اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے حالانکہ موجودہ حالات میں سعودی عرب کے یہ اقدامات اس کے بہت سے غلط اندازوں کی بنیاد پر استوار ہیں۔ اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ بحرین اور یمن میں فوجی مداخلت اور ان ممالک کے شہریوں کے قتل عام کی وجہ سے سعودی عرب کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا ہے اور وہ اپنے جرائم کے بارے میں جوابدہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ سعودی عرب نے وہابی اور سلفی افکار و نظریات کی ترویج اور داعش کی تشکیل میں سب سے زیادہ کردار ادا کیا ہے اور وہ اپنے اس کردار کا انکار نہیں کر سکتا ہے۔
سعودی عرب کی حکومت کی ایک اور غلطی اپنے مخالفین اور ناقدین کو غیر اہم سمجھنے سے عبارت ہے۔ آل سعود یہ خیال کرتی ہے کہ وہ تشدد کے ذریعے اپنے مخالفین اور ناقدین کی آواز دبا سکتی ہے۔ سعودی عرب کی سیاست میں استحکام اور پائیداری صرف اسی صورت میں لوٹ سکتی ہے کہ اس ملک کے حکام حقیقت پسندی سے کام لیں اور اپنی مشکلات کے اسباب دوسری جگہ تلاش کرنے کے بجائے اپنے عمل و کردار میں تلاش کرنے کی کوشش کریں ۔
حقیقت یہ کہ سعودی عرب نے ایک خطرناک سیاسی کھیل شروع کر رکھا ہے اور اس سلسلے میں وہ یورپ کی حمایت اور پیٹرو ڈالرز کا سہارا لے رہا ہے لیکن تجربے سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ یہ سہارا بہت ہی کمزور اور متزلزل ہے اور آل سعود رائج عالمی ضابطوں کی خلاف ورزی اور ڈی کنسٹرکشن ( Deconstruction ) کے ذریعے صرف اپنی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔
یہ بات یقینی ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی اور قبائلی اختلافات کو ہوا دینے کے بہت ہی خطرناک نتائج برآمد ہوتے ہیں جن کا سعودی عرب اس وقت شکار ہو چکا ہے۔ اس لئے ریاض کے حکام کو مقدسات کی پامالی اور اپنی سیاسی غلطیوں کے منفی نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
جیساکہ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ یقینا اس مظلوم شہید کا ناحق بہایا جانے والا خون بہت جلد اپنا اثر دکھائےگا اور الہی انتقام کا ہاتھ سعودی حکام کے گریبانوں تک پہنچ جائے گا۔