سعودی عرب میں آل سعود کی لرزتی ہوئی بنیادیں
آل سعود کی رجعت پسند اور قرون وسطی کے نظریات کی حامل حکومت کی صورت حال کچھ ایسی ہے کہ حتی عرب حلقوں کو بھی کہ جو اس حکومت کے حامی سمجھے جاتے ہیں، اس حکومت کے باقی رہنے کی کوئی خاص امید نہیں ہے اور وہ مختلف عوامل کو آل سعود کے ممکنہ سقوط اور خاتمے کا سبب سمجھتے ہیں۔
اس سلسلے میں برطانوی اخبار انڈیپینڈنٹ نے سعودی عرب کی خراب معاشی اور اقتصادی صورت حال کو آل سعود کے سقوط اور خاتمے کا ایک ممکنہ سبب قرار دیا ہے۔ اس اخبار نے بدھ کے روز اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ سعودی عرب کی خراب اقتصادی صورت حال اس ملک کے حکمراں خاندان کے زوال اور آل سعود کے سقوط اور خاتمے پر منتج ہو سکتی ہے۔
اخبار نے مزید لکھا ہے کہ آل سعود آیت اللہ باقر النمر کو سزائے موت دینے کے بعد اس اقدام سے پیدا ہونے کی فضا سے فائدہ اٹھا کر سعودی عرب کے اقتصادی بحران کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس برطانوی اخبار نے مزید لکھا ہے کہ دو ہزار چودہ کے موسم گرما سے تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی نے سعودی عرب کہ جس کی آمدنی کا نوے فیصد حصہ تیل کی آمدنی سے تعلق رکھتا ہے، کے مالی ذخائر کو ختم کر دیا ہے۔ تیل کی عالمی قیمتوں میں جاری کمی نے سعودی عرب کے زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور یہ اسٹریٹجک ذخائر بھی سعودی عرب کی خراب مالی پوزیشن کو بہتر نہیں بنا سکے ہیں۔ مختلف میدانوں میں خاص طور پر سعودی شہزادوں کی سیر و تفریح کے بھاری اخراجات اور شام و عراق میں زرخرید دہشت گردوں کو تنخواہوں کی ادائیگی نیز یمن کے خلاف آل سعود کی جنگ کے بھاری اخراجات نے ریاض حکومت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور اسے سنگین مالی مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب نے امریکہ کی سازشی پالیسیوں کے زیر اثر تیل کی قیمتوں میں کمی کی ہے، لیکن خود اس نے عملی طور پر حالیہ ہفتوں کے دوران اپنے اقتصاد اور معیشت پر اس کے منفی اثرات کا مشاہدہ کیا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں حالیہ کمی نے اگرچہ تیل برآمد کرنے والے بعض ممالک کے اقتصاد پر جزوی اور عارضی اثرات مرتب کیے ہیں لیکن آخرکار یہ تیل کی بنیاد پر استوار سعودی عرب کا اقتصاد ہے کہ جسے تیل کی منڈیوں میں آل سعود کی مہم جوئی کے نئے دور سے سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ انسانی ترقی کے عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی تیل کی سالانہ سینکڑوں ارب ڈالر کی آمدنی کے باوجود اس ملک کے تقریبا ستر فیصد عوام اپنے ملک کے اقتصادی اور خراب حالات سے راضی اور مطمئن نہیں ہیں اور وہ اقتصاد سمیت مختلف میدانوں میں اپنے ملک میں بنیادی تبدیلیاں لانے پر زور دیتے ہیں۔
یہ ایسے حالات میں ہے کہ جب سعودی عرب پر حاکم قرون وسطی کا سیاسی نظام، سرگرم سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کو وسیع پیمانے پر کچلنا اور انھیں سزائے موت دینا اور اس ملک میں کم سے کم آزادیوں کا نہ ہونا سعودی عرب کے عوام اور رائے عامہ کے احتجاج اور اعتراض کا باعث بنا ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب قانونی حلقوں نے بھی آیت اللہ باقر النمر کو غط اور ظالمانہ طریقے سے سزائے موت دینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ اس جلیل القدر عالم دین کو بےبنیاد الزامات اور سعودی عرب میں طرز حاکمیت پر تنقید کی وجہ سے جیل میں ڈالا گیا اور انھیں بلاجواز پھانسی کی سزا سنا کر اس پر عمل کیا گیا کہ کسی بھی ملک کے قانون میں کسی بھی شخص کو تنقید کرنے کی بنا پر موت کی سزا نہیں دی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ آل سعود کی حکومت میں حکومتی نظام موروثی ہے اور اس ملک کے عوام کا حکومتی امور کو چلانے اور قانون سازی میں شرکت کے سلسلے میں کوئی کردار نہیں ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب سعودی عرب میں انتخابات، مختلف سیاسی جماعتوں اور آزادی صحافت جیسی جمہوری نشانیوں اور اقدار کا کوئی وجود نہیں ہے۔
بلا شبہ آل سعود حکومت کی پالیسیوں نے سعودی عرب کے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا ہے اور اس ملک میں دو ہزار گیارہ سے حکومت کے خلاف پرامن عوامی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ مختلف مسائل، تمام میدانوں میں آل سعود حکومت کے تنزل اور زوال کے عمل کی عکاسی کر رہے ہیں اور اس کے حامی بھی حیران و پریشان ہو کر اس کا نظارہ کر رہے ہیں۔