Jan ۱۰, ۲۰۱۶ ۱۷:۴۲ Asia/Tehran
  • ایران اور چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات

چین کے نائب وزیر خارجہ نے، جو تعلقات و تعاون کے فروغ اور اپنے ملک کے صدر کے دورۂ تہران کی تیاری کے مقصد سے تہران کے دورے پر ہیں، ایران کے وزیر خارجہ سے دو طرفہ اور علاقائی تعلقات کے بارے میں گفتگو کی۔

ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ہفتے کے روز چین کے نائب وزیر خارجہ جانگ مینگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور چین کے تعلقات بنیادی طور پر دیگر ملکوں سے بالکل مختلف ہیں اس لئے کہ دونوں ممالک، بہت سے علاقائی و عالمی مسائل میں مشترکہ نظریات رکھتے ہیں۔

محمد جواد ظریف نے ایران کے ساتھ گروپ پانچ جمع ایک کے مذاکرات کے مختلف مراحل اور جوہری سمجھوتے کے نتائج میں چین کے تعمیری کردار پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چین کے صدر کے عنقریب دورۂ تہران کے وسیع نتائج برآمد ہوں گے اور امید کی جاتی ہے کہ دونوں ملکوں کے جامع اسٹریٹیجک تعاون کا بہتر مستقبل بنےگا۔

اس ملاقات میں چین کے نائب وزیر خارجہ نے بھی کہا کہ ایران اور چین کے تعلقات فروغ پا رہے ہیں اور چودہ برسوں کے بعد چین کے صدر کا عنقریب دورۂ تہران دونوں ملکوں کے تعلقات میں نئے باب کا آغاز ثابت ہوگا۔ دو آزاد اور عالمی سطح پر بااثر ملکوں کی حیثیت سے ایران اور چین، تعاون کو فروغ دینے کے لئے مشترکہ مفادات و مقاصد کے حامل ہیں اور دونوں ملکوں کے تعلقات کا ماضی بھی مثبت تجربات کا حامل رہا ہے اور یہ تعلقات، مشترکہ جامع ایکشن پلان پرعملدرآمد اور چین کے صدر شی جن پینگ کے جنوری کے آخری ایام میں انجام پانے والے دورہ تہران سے اور زیادہ فروغ پائیں گے۔

دو طرفہ تعلقات کے ساتھ ساتھ علاقائی سطح پر بھی ایران اور چین، مشترکہ مفادات کے حامل ہیں اور اسی بنیاد پر وہ اپنے دو طرفہ تعلقات کو فروغ دے رہے ہیں۔ایران اور چین کے درمیان اقتصادی لین دین سے دونوں ملکوں کی ضروریات پوری ہوتی ہیں اور دونوں ملکوں کے اقتصادی تعلقات، پابندیوں کے دور میں بھی جاری رہے ہیں۔

چین، ایران کے تیل کا ایک اہم خریدار ملک ہے اور وہ، ایران کے تیل، پیٹروکیمیکل، سڑک اور ریلوے کے شعبوں میں سرمایہ کار ملک کی حیثیت سے سرگرم عمل ہے جبکہ ایران کی بڑی منڈی بھی چین کے لئے فائدہ اٹھانے کا ایک بےنظیر موقع، سمجھی جاتی ہے۔ ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد سے بھی ایران اور چین کے اقتصادی تعلقات کو مزید فروغ دینے کا بہترین موقع میسر ہوگا۔

ایرانی حکام نے تاکید کی ہے کہ ایٹمی معاہدے کے بعد اقتصادی تعاون، ماضی کی نسبت تبدیل ہوگیا ہے اور ایران اب صرف بیرونی مصنوعات کے استعمال کی منڈی نہیں ہے اور سرمایہ کاری میں ان ملکوں کو ترجیح حاصل ہے جنھوں نے پابندیوں کے دور میں ایران کو تنہا نہیں چھوڑا ہے۔ پابندیوں کے دور میں ایران کے ساتھ چین کے خوشگوار اقتصادی تعلقات کے ماضی کے پیش نظر ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد سے اقتصادی تعاون کا نیا مرحلہ شروع ہوجائےگا اور دونوں ملکوں کے صدور، اسی کے خواہاں بھی ہیں۔

ایران میں چین کی مختلف مصنوعات منجملہ کاروں کے مختلف ماڈل اور ایران میں مختلف شعبوں خاص طور سے سڑک بنانے اور چینی سرمایہ کاری سے مختلف شعبوں میں فنڈ کی فراہمی کے حوالے سے چین کے سرمایہ کاروں کی طویل المدت موجودگی سے ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کے بعد دونوں ملکوں کے اقتصادی تعاون میں مزید آسانیاں پیدا ہوں گی۔

اقتصادی شعبے کے علاوہ علاقائی و عالمی سطح پر بھی ایران اور چین، ایک دوسرے کے ساتھ اچھا تعاون کر رہے ہیں۔ایران اور چین، بین الاقوامی سطح پر یکطرفہ پسندی اور یونی پولرسسٹم کے سخت خلاف ہیں اور وہ اجتماعی تعاون کو بحرانوں کے حل کا بہترین طریقہ سمجھتے ہیں۔

مختلف شعبوں منجملہ دہشت گردی کے خلاف مہم میں ایران اور چین کا تعاون، عالمی سطح پر امن کے قیام میں اہم کردار کا حامل ہے اور اسی دائرے میں ایران اور چین کا خیال ہے کہ بحران شام صرف سیاسی طریقے سے حل کیا جاسکتا ہے اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لئے ہر طرح سے اس کے خلاف مہم کی ضرورت ہے۔

مشترکہ مفادات و نظریات نے ایران و چین کو تعاون کے دو قابل اعتماد ملکوں میں تبدیل کردیا ہے ایسی صورت حال میں جامع اسٹریٹیجک تعاون کا مستقبل بنانا ایک ضرورت سمجھاجاتا ہے۔

ٹیگس