Jan ۲۶, ۲۰۱۶ ۱۶:۲۰ Asia/Tehran
  • بنگلہ دیش میں خالدہ ضیاء کو عدالت میں طلب کئے جانے کا مسئلہ

بنگلہ دیش میں اس ملک کی سابق وزیراعظم بیگم خالدہ ضیاء کو عدالت میں طلب کئے جانے سے اس ملک میں سیاسی بحران و کشیدگی کی نشاندہی ہوتی ہے۔ انھیں سماج میں اختلاف و تفرقہ پھیلانے کے الزام میں عدالت میں طلب کیا گیا ہے۔

بیگم خالدہ ضیاء کو آئندہ تین مارچ کو عدالت میں اپنے خلاف عائد الزام کا جواب دینا ہے۔ خالدہ ضیاء کی زیر قیادت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی سے وابستہ ایک دھڑے نے منگل کے روز ملک گیر احتجاج کئے جانے کی اپیل بھی کی۔ بنگلہ دیش میں حالیہ چند برسوں سے پرتشدد مظاہروں، ملک گیر ہڑتالوں اور حکومت کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ دو ہزار چودہ سے اب تک اس ملک میں سترہ ہزار، سرگرم حکومت مخالفین کو گرفتار کیا جا چکا ہے جن میں سے تقریبا تین ہزار حکومت مخالفین، اس وقت بھی جیل میں ہیں۔

بیگم خالدہ ضیاء کو اس سے قبل بھی اپنی وزارت عظمی کے دور میں کرپشن کے الزام میں ان کے بیٹے کے ہمراہ عدالت میں طلب کیا گیا تھا۔ انھیں ستمبر دو ہزار چودہ میں کرپشن کے الزام میں ان کے بیٹے کے ہمراہ گرفتار بھی کرلیا گیا تھا۔ بنگلہ دیش کے سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ ان کے ملک کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد، اپنے ملک کی اہم ترین اور خاص طور سے اپنی پارٹی کی حریف جماعتوں بی این پی اور جماعت اسلامی کی پوزیشن کمزور کر کے بنگلہ دیش کے سیاسی میدان میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت بنگلہ دیش نے حالیہ دو برسوں کے دوران عدلیہ کی حمایت سے حکومت مخالف رہنماؤں کو عدالت میں طلب اور ان کے خلاف کارروائیاں کر کے اپنی حکومت کے خلاف مخالفین کے اقدامات کی روک تھام کرنے کی کوشش کی ہے۔

بنگلہ دیش کے حکومت مخالفین کا خیال ہے کہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد پورے ملک کے سماج پرمسلط ہو کرحکومت کر رہی ہیں اور وہ، پارلیمنٹ میں، کہ جس پر اس وقت عوامی لیگ کا کنٹرول ہے، انسداد دہشت گردی کے قوانین کی منظوری سے کسی بھی قسم کی پارٹی مخالفت پر قانونی کارروائی کر رہی ہیں۔ بیگم خالدہ ضیاء کی زیر قیادت بی این پی جیسی پارٹیوں میں پھوٹ ڈال کر انھیں کمزور کرنا اور ان پارٹیوں کے رہنماؤں کے خلاف قانونی کارروائیاں کرنا، شیخ حسینہ واجد کے منصوبوں میں شامل ہے۔ حال ہی میں بنگلہ دیش کی جنگی جرائم کی عدالت نے جماعت اسلامی کے بعض رہنماؤں کو سزائے موت بھی سنائی ہے، جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ بنگلہ دیش کی عوامی لیگ ، اپنے ملک کی فوج کے تعاون اور مغرب نیز ہندوستان کی حمایت کے ذریعے سیاسی میدان سے مخالفین کو ہٹا کر اپنے اقتدار کی بنیاد مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ بنگلہ دیش میں دو اہم سیاسی جماعتوں کی سربراہوں کی حیثیت سے شیخ حسینہ واجد اور بیگم خالدہ ضیاء کا اقتدار پر قبضہ رہا ہے اور جو پارٹی بھی اقتدار میں آئی ہے اس کی حکومت نے مخالف جماعت کو کمزور اور اسے اقتدار سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے۔ البتہ اس ملک میں اہم جماعتوں کے رہنماؤں کے خلاف قانونی کارروائی اور انھیں سزائے موت دینے جیسے اقدامات، ایسے ہیں کہ جن کی کوئی مثال نہیں ملتی یا مشکل سے ہی کوئی مثال مل سکتی ہے۔ اس بناء پر بنگلہ دیش کے سیاسی مبصرین، اپنے ملک میں سیاسی تبدیلیوں کے عمل کو اقتدار پر شیخ حسینہ واجد کی اجارہ داری کا مظہر قرار دیتے ہیں جو سیاسی اصول و ضوابط کو پیروں تلے روندتے ہوئے صرف اس کوشش میں ہیں کہ حکومت مخالف جماعتوں کو کمزور کرکے یہاں تک کہ انھیں احتجاج کرنے سے بھی روک دیں۔

بہرحال سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش کے سماجی، اقتصادی اور سیاسی مسائل کے پیش نظر، اس ملک کو ان تمام مسائل سے چھٹکارہ پانے کے لئے اس وقت ماضی سے کہیں زیادہ مختلف جماعتوں میں تعاون و سیاسی یکجہتی کی ضرورت ہے تاہم ان مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جسے بنگلہ دیش کی موجودہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی جانب سے مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

ٹیگس