روس کے وزیر دفاع کا دورہ تہران
روس کے وزیر دفاع سرگئی شوئے گو نے، دو طرفہ تعلقات کے فروغ اور علاقے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں ایرانی حکام کے ساتھ تبادلۂ خیال کے لئے تہران کا دورہ کیا۔
وہ اپنے دورے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی کے نام روس کے صدر ولادیمیر پوتن کا پیغام بھی ساتھ لے کر آئے۔ روس کے وزیر دفاع نے تہران میں اتوار کی شام صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی سے ملاقات میں اپنے ملک کے صدر ولادیمیر پوتن کا پیغام پہنچانے کے علاوہ انھیں شام سے متعلق مذاکرات کی تازہ ترین صورت حال کے بارے میں ایک رپورٹ بھی پیش کی۔ روس کے وزیر دفاع نے اپنے ایرانی ہم منصب بریگیڈیئر جنرل حسین دہقان سے بھی ملاقات میں روس اور ایران کے درمیان دفاعی سمجھوتوں کے عمل کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا۔
روس کے وزیر دفاع کا دورۂ تہران ایسی حالت میں انجام پایا کہ گذشتہ ہفتے ایران کے وزیر دفاع نے ماسکو کا دورہ کیا تھا۔ سیاسی حلقوں نے روسی وزیر دفاع کے دورہ تہران اور ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی کے نام روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے پیغام کو شام کے حالات سے متعلق قرار دیا ہے۔ روس کے وزیر دفاع کے دورہ تہران کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اعلان کیا کہ انھوں نے روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سے شام میں فائر بندی کے نفاذ سے متعلق سمجھوتے کی شقوں کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ جان کیری نے شام میں فائر بندی کے نفاذ کے بارے میں ایک عارضی سمجھوتے کا ذکر کیا اور کہا کہ اس سمجھوتے پر آئندہ چند روز کے اندر عمل درآمد شروع ہو سکتا ہے تاہم سمجھوتے پر عمل درآمد سے قبل شام میں متحارب فریقوں سے مذاکرات کئے جانے کی ضرورت ہے۔
مسلمہ امر یہ ہے کہ سیکورٹی کی حکمت عملی کی بنیاد پر ایران اور روس کے درمیان قریبی رابطے ہیں اور اسی بناء پر علاقے کی تبدیلیاں، دونوں ملکوں کے درمیان خاص طور سے شام کے بحران کے تعلق سے مزید تعاون کا باعث بنی ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ علاقائی مسائل کے بارے میں دونوں ممالک، مشترکہ نظریات کے حامل ہیں اور یمن کے مسئلے میں بھی ایران کا خیال ہے کہ روس، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعے اس ملک پر سعودی جارحیت بند کرانے میں مدد کر سکتا ہے۔ روس اور ایران، تیل اور گیس پیدا کرنے والے دو بڑے ممالک ہیں جو اپنے درمیان تیل و گیس کی منڈیوں میں مزید ہم آہنگی کا عمل بھی آگے بڑھا سکتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی شعبے میں طویل المدت نیز مفادات کا حامل تعاون جاری ہے۔ دفاعی شعبے میں بھی یہ بات فطری ہے کہ ایران، اپنی دفاعی توانائی کو مضبوط بنانے کے لئے روس کی دفاعی توانائی سے استفادہ کرے جبکہ اس سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان اہم سمجھوتے بھی طے پائے ہیں۔ مذکورہ تمام شعبوں میں تعاون کے علاوہ علاقے کی موجودہ صورت حال میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں علاقے کی تبدیلیوں پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔
بعض مبصرین، شام میں داعش دہشت گردوں کے مقابلے میں اس ملک کی فوج اور عوامی رضاکار دستوں کے مفاد میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو علاقے میں اہم تبدیلیوں کے آغاز کی علامت سمجھتے ہیں۔ ان تبدیلیوں نے مغرب اور عرب اتحاد کو، جو شام کے اقتدار سے بشار اسد کو ہٹائے جانے کا خواہاں تھا، سخت مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔ ادھر شام میں روس کے فوجی اقدام کے بعد پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے بعد علاقے میں امریکہ کی پالیسیوں میں ایک طرح کی تبدیلی کا احساس کیا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود کہ ترکی اور سعودی عرب نے صورت حال کو تبدیل کرنے کی کافی کوششیں کی ہیں تاہم ایسا لگتا ہے کہ وہ علاقے میں اپنی پالیسیوں کو آگے بڑھانے میں ناکام، اور علاقے میں پائے جانے والے حقائق کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ترکی اور سعودی عرب کی علاقائی پالیسیوں پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی تنقید کا بھی اسی دائرے میں جائزہ بھی لیا جا سکتا ہے۔
بہرحال ایران اور روس، علاقے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں، تاہم جیساکہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے روس کے وزیر دفاع سے گفتگو میں تاکید کے ساتھ کہا ہے، شام کا بحران صرف سیاسی مذاکرات اور اس ملک کے عوام کے، اس حق کا احترام کئے جانے سے ہی حل ہوسکتا ہے کہ شام کے مستقبل کا فیصلہ صرف شامی عوام ہی کر سکتے ہے۔