سعودی عرب، لبنان کےسیاسی بحران میں شدت پیدا ہونے کا موجب
لبنان کا سیاسی ماحول ابھی تک اس ملک کی فوج کو مسلح کرنے سے متعلق مالی مدد کے وعدے پر عملدرآمد نہ کرنے پر مبنی آل سعود حکومت کی حالیہ مہم جوئی سے متاثر ہے۔
بیروت کی جانب سے تہران اور حزب اللہ کے مواقف کی حمایت کئے جانے کے بہانے آل سعود حکومت نے تین دن قبل کہا کہ وہ لبنانی فوج کو مسلح کرنے سے متعلق اس ملک کو تین ارب ڈالر مالی امداد دینے کے اپنے وعدے پر عمل نہیں کرے گی۔ آل سعود حکومت کے اس اقدام کے خلاف لبنان کے حکام، عہدیداروں اور سیاسی جماعتوں نے رد عمل ظاہر کیا ہے۔ بیروت نے قاہرہ میں عرب لیگ کے وزرائے خارجہ اور جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم کے حالیہ اجلاسوں میں سعودی عرب کی مداخلت پسندانہ اور اختلافات پھیلانے پر مبنی پالیسیوں کا ساتھ دینے سے انکار کیا جس کے بعد آل سعود نے لبنانی فوج کو اپنی مالی امداد نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ خطے خصوصا یمن اور شام کے امور میں مداخلت کرنے کی بنا پر آل سعود حکومت کو رائے عامہ کے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ اس حکومت نے سعودی عرب کے شیعوں کے قائد آیت اللہ باقر نمر کو دی جانے والی سزائے موت کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کی جانب سے دو ماہ قبل ایران میں سعودی عرب کے سفارتی مراکز پر حملے کے بعد ایران کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ لبنان جیسے ممالک کی جانب سے مخالفت کئے جانے کی وجہ سے آل سعود حکام سیخ پا ہو گئے۔
لبنان کے وزیر خارجہ جبران باسیل نے منگل کے دن لبنان میں سعودی عرب کی مہم جوئی کے نئے دور پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ریاض کی ایران مخالف پالیسیوں کا ساتھ دینے پر مبنی سعودی عرب کی درخواست بیروت کی غیر جانبدارانہ پالیسی کے منافی ہے۔ لبنانی وزیر خارجہ نے کہا کہ لبنانی فوج کے لئے سعودی عرب کی نام نہاد امداد کے روکے جانے کے اعلان کے بعد جو سیاسی کشمکش پائی جاتی ہے وہ در اصل ایک ایسی سازش ہے جو لبنان میں کشیدگی میں شدت پیدا کرنےکے لئے تیار کی گئی ہے۔ جبران باسیل کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہمیں عربوں کے اجماع یا لبنان کے قومی اتحاد میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو یقینا ہم قومی اتحاد کو ہی ترجیح دیں گے۔
دریں اثنا سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے والے سعد حریری کی قیادت والی فیوچر موومنٹ کے رکن نہاد المنشوق جیسے افراد نے لبنان کی فوج اور سیکورٹی فورس کے لئے مختص کی جانے والی تین ارب ڈالر کی امداد روکنے پر مبنی ریاض کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ المنشوق نے لبنانی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لئے سعودی حکام کے وسیع اقدامات کا بھی مطالبہ کیا۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب لبنان کے وزیر اعظم تمام سلام نے ایک بار پھر اپنے ملک کے قومی مفادات کے تحفظ پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ بیروت آزادانہ پالیسی اپنا کر لبنان علاقائی کشمکش میں الجھنے کا مخالف ہے اور وہ غیر ملکی دباؤ سے متاثر نہیں ہوگا۔
دو سال قبل لبنان کے اس وقت کے صدر میشل سلیمان نے کہا تھا کہ سعودی عرب نے لبنان کی فوج کو مسلح کرنے کے مقصد سے فرانس کو تین ارب ڈالر ادا کرنے سے اتفاق کیا ہے۔ اس کے باوجود سعودی عرب نے نے نہ صرف اس وعدے پر عمل نہ کیا بلکہ لبنانی حکام نے جب بھی سعودی حکام کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران یہ مسئلہ اٹھایا تو سعودی حکام مختلف بہانوں سے ان کو ٹالتے رہے۔
سعودی حکام کے ریکارڈ میں یہ بات موجود ہے کہ وہ دوسرے ممالک کو مدد دینے کے کھوکھلے وعدے کرتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں سعودی حکام کے اس وعدے کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے جو انہوں نے سنہ دو ہزار چودہ میں اسرائیلی حملے کے نتیجے میں کھنڈرات میں تبدیل ہوجانے والے غزہ کی تعمیر نو کے لئے فلسطینی حکام کو مالی مدد دینے کے سلسلے میں کیا تھا۔ لیکن سعودی حکام نے مختلف بہانوں کے ساتھ ابھی تک اس وعدے کو پورا نہیں کیا ہے۔