Feb ۲۵, ۲۰۱۶ ۱۵:۴۴ Asia/Tehran
  • شام میں جنگ بندی ایران وروس کی تشویش

شام میں جنگ بندی مفید قدم تاہم ایران اور روس نے یہ تشویش بھی ظاہر کی ہے کہ جنگ بندی کہیں دہشتگردوں کو دوبارہ منظم ہونے کے موقع میں تبدیل نہ ہوجائے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی اور روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے ٹیلیفون پر شام کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ صدر جناب حسن روحانی نے اس گفتگو میں شام میں جنگ بندی پر عمل درآمد اور جھڑپوں کے خاتمے کو شام کے عوام کے مفادات میں ایک قدم قراردیا ہے۔

صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے اس گفتگو میں جو بدھ کے روز انجام پائی ساتھ ہی ساتھ کہا ہے کہ عارضی جنگ بندی کو دہشتگردوں کے لئے دوبارہ تازہ دم ہونے اور نئی مالی اور فوجی امداد حاصل کرنے کے موقع میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔ صدر جناب روحانی نے شام میں جنگ بندی کے معاہدے میں موجود ابہامات اور نقائص کو گنواتے ہوئے کہا کہ اس سمجھوتے میں متعدد نقائص اور ابہامات موجود ہیں جن کا ازالہ، تشویشیں دور کرنے کےلئے ضروری ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے تہران میں روس کے وزیر دفاع کی جانب سے شام میں حاصل شدہ سمجھوتوں کے بارے میں بیان شدہ تفصیلات کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ جو سمجھوتے کئے گئے ہیں وہ مکمل نہیں ہیں اور دہشتگردی نیز انتہا پسند عناصر سے مقابلے کے عمل کو کسی بھی چیز سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔

روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے بھی اس ٹیلیفونی گفتگو میں شام میں جنگ بندی پرعمل کرنے کے لئے جو مذاکرات ہوئے ہیں ان کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران اور روس کے تعلقات تعمیری اور باہمی اعتماد پر استوار ہیں اور اسی دائرے میں ہمیں شام کے مسئلے کے سلسلے میں قریبی تعاون اور ہماہنگی کی ضرورت ہے۔ روسی صدر نے شام کے بارے میں طے شدہ سمجھوتے میں موجود نقائص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جنگ بندی کے عمل پر نہایت کڑی نگرانی کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ شام میں جنگ بندی سے دمشق کی مرکزی حکومت کے علاقوں میں پناہ گزینوں کو مدد پہنچنی چاہیے اور یرغمالیوں اور بے گناہ افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔

صدر پوتن نے زور دے کر کہا کہ شام میں جنگ بندی کے عمل پر نگرانی کا طریقہ کار واضح ہوچکا ہے اور دہشتگردوں کی آمد ورفت اور ان کے لئے مالی اور فوجی امداد روکنے کے لئے سرحدوں پر کڑا کنٹرول ہونا لازمی ہے۔

واضح رہے شام میں جنگ بندی کی کوششیں اور شام کے متحارب گروہوں کے درمیان نئے امن مذاکرات جو اقوام متحدہ کی نگرانی میں انجام پائیں گے بے شک ایک اہم اور ضروری اقدام ہے جس کی حمایت کرنا چاہیے۔

بعض رپورٹوں کے مطابق شام میں جاری جھڑپوں میں پانچ برسوں میں اب تک ڈھائی لاکھ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور تقریبا بارہ ملین افراد شام کےاندر اور بیرون ملک پناہ لینے پر مجبور ہوچکے ہیں۔

اقوام متحدہ میں گذشتہ روز سفارتکاروں نے اعلان کیا تھا کہ سلامتی کونسل کے ارکان شام میں جنگ بندی کے سلسلے میں امریکہ اور روس کے درمیان طے پانے والے سمجھوتے کے مسودہ پر بحث و گفتگو کرکے اسے منظوری دینا چاہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پندرہ رکن ہیں جو اس مسودے کو جمعے کے دن منظوری دیں گے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس چون اور ویانا کی دو نشستوں کے بیانات اس عمل کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ طے پایا ہے کہ شام میں جنگ بندی جمعے کے دن گرینیچ کے وقت کے مطابق رات کے دس بجے سے نافذ ہوگی لیکن افسوس کہ اس کی راہ میں ابھی بھی بہت سی رکاوٹیں ہیں۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہےکہ اگر جنگ بندی پر تمام فریقوں نے عمل نہ کیا تو یہ جنگ بندی عملی طور سے دہشتگردوں کو دوبارہ تازہ دم ہونے کے موقع میں تبدیل ہوجائے گی۔ جھڑپیں روکنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ شام کے دشمنوں نے اپنے اھداف سے ہاتھ کھینچ لئے ہیں۔

شام میں حکومت کی تبدیلی کی ضرورت پر مبنی امریکی، ترکی اور سعودی عرب کے حکام کے بیانات سے اسی حقیقت کا پتہ چلتا ہے۔ شام کے بحران کے آغاز سے ایران نے ہمیشہ شام میں جنگ بندی پر تاکید کی ہے لیکن ایران کو یہ تشویش لاحق ہے کہ یہ پوری طرح سے واضح نہیں ہےکہ کیا مسلح گروہ جو جانے پہچانے دہشتگردوں کے لئے کام کررہے ہیں کیا وہ جنگ بندی کی پابندی کریں گے یا نہیں؟ صدر پوتن سے ڈاکٹر حسن روحانی کی ٹیلیفونی گفتگو بھی اسی تشویش کو ظاہر کرتی ہے۔

ٹیگس