سعودی عرب کی تفرقہ انگیزی جاری
پانچ جمع ایک گروپ کے ساتھ ایران کےایٹمی معاہدے کے بعد علاقے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر ونفوذ سے صیہونی حکومت اور سعودی عرب کو شدید تشویش لاحق ہوچکی ہے اور اسی تشویش کی بنا پر یہ حکومتیں ایک دوسرے سے قریب ہوگئی ہیں۔
صیہونی حکومت کی نیوز ویب سائٹ نیشنل نیوز نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسرائیل کا ایک اعلی رتبہ وفد چند ہفتے قبل سعودی عرب کے دورے پر گیا تھا۔اس رپورٹ کے مطابق صیہونی حکومت کے کسی وفد کا یہ پہلا دورہ ریاض نہیں تھا۔ صیہونی وزیر جنگ موشہ یعلون نے فروری کے مہینے کے وسط میں میونخ کانفرنس میں کہا تھا کہ اسرائیل خلیج فارس کے عرب ملکوں بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ خفیہ تعلقات قائم کررہا ہے۔
صیہونی حکومت اور آل سعود کی حکومت متحد ہوکر علاقے کی سیکورٹی اور اتحاد کو نشانہ بنارہی ہیں لیکن آل سعود کے حکام اس کا جواز پیش کررہے ہیں۔
سعودی عرب کے ولیعھد اور وزیر داخلہ محمد بن نایف نے بدھ کو تیونس میں عرب لیگ کے وزارتی اجلاس میں دعوی کیا تھا کہ اس وقت ہمیں ایسے داخلی اور خارجی چیلنجوں کا سامنا ہے جن کا ھدف عرب ملکوں کو عدم استحکام اور تزلزل کا شکار بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنا ضروری ہے اور بقول ان کے ہمارے کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ سعودی عرب اپنے دعوؤں کے برخلاف عملا عرب قوموں کی تباہی کے راستے پر گامزن ہے اور عرب نیشنلزم پر بھی یقین نہیں رکھتا ہے۔ سعودی عرب کے اس رویے کا ایک نمونہ لبنان کی فوج اور سیکورٹی فورسز کے لئے مالی امداد بند کرنے کا فیصلہ ہے۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے چند دنوں قبل سی این این چینل سے انٹرویو میں حزب اللہ لبنان کو دنیا کی سب سے بڑی دہشتگرد تنظیم قراردیا تھا اور کہا تھا کہ ایران نے حزب اللہ کو وجود بخشا ہے۔ سعودی عرب کے حکام نے کہا ہے کہ سعودی حکومت کا یہ فیصلہ عرب اتفاق رائے سے لبنان کے اختلاف کرنے کا جواب ہے۔ ان کے بقول لبنان کی پالیسیاں سعودی عرب کے ساتھ ہماہنگ نہیں ہیں۔یہ بیانات لبنان کی جانب سےعرب ملکوں کی اس قرارداد کو مسترد کرنے کے بعد سامنے آئے ہیں جو ایران کے خلاف جاری کی گئی تھی۔ لبنان نے اس قرارداد پر دستخط نہں کئے ہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ سعودی عرب کبھی بھی نازک حالات میں عرب ملکوں کے ساتھ نہیں رہا ہے بلکہ برعکس اس نے ہمیشہ اسلامی ملکوں کے اتحاد میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ عرب لیگ اس ھدف سے تشکیل پائی تھی کہ عرب ملکوں کا دفاع کرے لیکن سعودی عرب کی پالیسیاں مکمل طرح سے عرب اور اسلامی ملکوں کے مفادات کے منافی ہیں چنانچہ انیس سو سڑسٹھ اور انیس سو تہتر میں عرب اسرائیل کی جنگوں میں سعودی عرب نے عربوں کی کسی طرح کی حمایت اور مدد نہیں کی تھی۔
سعودی عرب کے ظالم حکمرانوں کو اپنے مفادات کا بھی ادراک نہیں ہے چہ جائیکہ وہ علاقے کے مشترکہ مفادات اور مصلحتوں کو سمجھ سکیں۔ سعودی عرب کے حکام نے تین دہائیوں قبل ایران کے خلاف مسلط کردہ جنگ میں عراق کے خونخوار ڈکٹیٹر صدام کی بھرپورحمایت کی تھی جبکہ صدام علاقے کے لئے بڑا خطرہ شمار ہوتا تھا اور اس نے ایران پر جنگ مسلط کرنے کے چند برسوں بعد کویت پر بھی لشکر کشی کردی تھی۔ سعودی عرب کے بارے میں بہت سے سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ آل سعود خلیج فارس تعاون کونسل اور عرب لیگ پرمسلط ہوچکی ہے اور اس نے عرب ملکوں کو صیہونی حکومت کے مفادات کا محافظ بنادیا ہے۔
تہران میں سعودی عرب کے سفارتخانے پر بعض خود سر عناصر کے حملے کے بعد عرب لیگ نے اپنے ہنگامی اجلاس میں ایران کے خلاف جو فیصلے کئے ہیں ان سے دراصل یہ پتہ چلتا ہے کہ عرب ممالک آل سعود کے حکمرانوں کی تقرفہ انگیز اور فرقہ وارانہ پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لئے اس کے آلہ کار بن چکے ہیں۔ بدھ کو خلیج فارس تعاون کونسل کے ملکوں نے مکمل طرح سے سعودی عرب کی مرضی کے مطابق عمل کیا تھا۔ خلیج فارس کے چھے عرب ملکوں کی تعاون کونسل نے حزب اللہ لبنان کو دہشتگرد قراردینے کے عرب لیگ کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے مکمل طرح سے آل سعود کے ڈکٹیشن پر عمل کیا ہے جبکہ ساری دنیا یہ جانتی ہے کہ حزب اللہ لبنان صیہونی حکومت کی جارحیت کے مقابل پوری طاقت کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہے۔ صیہونی حکومت کے خطروں اورسازشوں کی جانب سے سعودی عرب کی غفلت ایسی غلطی ہے جس سے علاقے کے امن واستحکام کو نقصان پہنچے گا۔