علاقے کو دہشتگردی سے خطرے لاحق
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے روس کی تاس نیوز ایجنسی سے بات چیت میں علاقائی بحرانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتہا پسندی اور دہشتگردی نے علاقے، مرکزی ایشیا اور قفقاز کو خطرات سے دوچار کردیا ہے۔
محمد جواد ظریف نے جمعے کےدن اس انٹرویو میں کہا کہ ہم سب کو انتہا پسندی سے خطرات لاحق ہیں لھذا ضروری ہے کہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے منشور کے احترام کے لئے تنازعات کو پرامن طریقوں سے حل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی اور انتہا پسندی جارحیت اور قبضے کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ عراق پر برسوں کے قبضے اور اسکے بعد کی صورتحال کے بعد انتہا پسندی میں شدت آئی ہے۔
محمد جواد ظریف نے علاقائی بحرانوں کو حل کرنے بالخصوص انتہا پسندی سے نجات پانے کے لئے ایران کی پالیسیوں کو بیان کیا۔ انہوں نے دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کے دعویدار ملکوں کی دوہری پالیسیوں پر تنقید کی۔
انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو بالخصوص ان ملکوں کےلئے جو دہشتگردی اور انتہا پسندی کے بارے میں زیادہ باتیں کرتے ہیں ان کے لئے یہ سیکھنا ضروری ہے کہ وہ قانون کی پابندی کریں اور سنجیدہ ہوں اور دہشتگردی اور انتہا پسندی سے مقابلہ کرنے کے لئے سیاسی فیصلے کرنے کے بجائے عمل کریں۔
محمد جواد ظریف نے تاکید کی کہ ایک دوسرے کی مدد سے انتہا پسندی کو کنٹرول کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انتہا پسندی کا کئی طریقوں سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے جس میں ایک فوجی طریقہ ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ کا یہ بیان امریکہ کی دوہری پالیسیوں کی طرف اشارہ ہے جس پر وہ علاقے میں عمل کررہا ہے۔
امریکہ دہشتگردی سے مقابلے کے دعوے کے پس پردہ دہشتگرد گروہوں کی حمایت کرتا ہے اور علاقے میں انہیں اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے استعمال کرتا ہے۔امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے جمعرات کو بحرین میں خلیج فارس تعاون کونسل کے اجلاس میں شرکت کرنے کے لئے منامہ کا دورہ کیا تھا اور انہوں نے اپنے ملک کی تفرقہ انگیز اور مداخلت پسندانہ پالیسیوں کو علاقے میں استحکام اور سکیورٹی کا باعث قراردیا۔
جان کیری نے منامہ میں جہاں امریکی بحریہ کا پانچواں بیڑا تعینات ہے، بحرین اور سعودی عرب میں جمہوریت کے فقدان کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا اور نہ ہی آل خلیفہ کے حکام کی تشدد آمیز پالیسیوں کی طرف اشارہ کیا، نیز نہ ہی انہوں نے یمن میں سعودی عرب کے مجرمانہ اقدامات کا کوئی ذکرکیا بلکہ ان ملکوں کی پالیسیوں کو علاقے میں استحکام کا سبب قراردیا ہے جبکہ بحرین کی حکومت چار برسوں سے زائدعرصے سے عوام کو بری طرح کچل کران کے مطالبات مسترد کررہی ہے اور اس نے انصاف کے تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے ہزاروں افراد کو قید کر رکھا ہے اور پھانسی کی سزا اور بحرینی باشندوں کی شہریت سلب کرنے کے فیصلے جاری کرکے کھلم کھلا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کررہی ہے۔
سعودی عرب نے بھی امریکی ہتھیاروں سے یمن کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے اور وہ یمن کے عوام کو خاک و خون میں غلطاں کررہا ہے ان تمام مسائل کے باوجود امریکہ بحرین اورسعودی عرب کی حکومتوں کی حمایت کررہا ہے۔ دراصل یہ ممالک ہتھیار خریدنے کے لئے بڑی بڑی رقمیں مختص کرتے ہیں اور علاقے میں امریکہ کے اتحادی شمار ہوتے ہیں اور اپنی سیکورٹی دوسروں کو بدامنی میں مبتلا کرنے میں دیکھتے ہیں۔
واضح سی بات ہے کہ علاقے اور عالمی سطح پر سکیورٹی کا چیلنج دہشتگردی اور انتہا پسندی سے پیدا ہوا ہے جس کو امریکہ اور اس کے علاقائی اتحادیوں کی حمایت حاصل ہے۔
محمد جواد ظریف نے مونیخ سکیورٹی کانفرنس میں بھی کہا تھا کہ مل کر مشترکہ خطروں کا مقابلہ کرنے کے لئے تعاون کا نیا نمونہ بنایا جاسکتا ہے جس کے ذریعے یا ہم سب مل کر کامیاب ہونگے یا پھر سب مل کر ہارجائیں گے۔
جو بات مسلم ہے وہ عالمی امن کا موضوع ہے جس میں ایٹمی سیکورٹی سے لے کر دہشتگردی اور انتہا پسندی کی نفی اور عالمی اقتصاد شامل ہیں ۔ اس بناپر مشترکہ خطروں کا مقابلہ کرنے کےلئے نقطہ نگاہ میں تبدیلی لانا اور حقیقت پسندی سے کام لینا لازمی ہے۔