امریکہ نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے: عالمی فوجداری عدالت
ہیگ کی عالمی فوجداری عدالت کی اٹارنی جنرل فاتو بن سودا نے کہا ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے.
امریکی فوج نیز سی آئی اے کی تحقیقات کے مطابق امریکی فوج نے دوہزار تین سے دوہزار چار تک قیدیوں کے ساتھ نہایت غیر انسانی سلوک کیا ہے اور انہیں جسمانی ایذائیں پہنچائی ہیں۔ بن سودا نے کہا کہ موجودہ ثبوت و شواہد سے پتہ چلتا ہےکہ امریکہ اور سی آئی اے کے کارندوں نے قیدیوں سے اعتراف لینے کے لئے ایسے اقدامات کئے ہیں جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔یہ پہلی بار ہے کہ ایک عالمی عدالت افغانستان میں امریکی فوجیوں کے جنگی جرائم کی تحقیقات انجام دے رہی ہے۔ ہیگ کی فوجداری عدالت ایک عالمی عدالت ہے جو نسل کشی، انسانیت سوز اقدامات اور جنگی جرائم کا جائزہ لینے کے لئے قائم کی گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہیگ کی عالمی فوجداری عدالت کی جانب سے امریکہ کو مجرم قراردینا ایک بے مثال اور بڑا اقدام ہے تاکہ افغانستان میں امریکہ کے ان فوجیوں اور سی آئی اے کے کارندوں کے خلاف قانونی اقدامات کئےجاسکیں جو جنگی جرائم میں ملوث ہیں۔ ہمیشہ سے امریکہ ہی مدعی کی حیثیت میں انسانی حقوق کے مدافع کے طورپر دوسرے ملکوں میں انسانی حقوق اور فردی و اجتماعی آزادی کے بارے میں رپورٹ پیش کرتا آیا ہے۔امریکہ بہت سے ملکوں پر انسانی حقوق پامال کرنے کے الزامات لگاتا ہے۔ اب تک امریکہ دیگر ملکوں کے خلاف انسانی حقوق کی پامالی اور جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام لگا کر افراد اور حکام پر مقدمہ چلائے جانے کا مطالبہ کرتا تھا لیکن اب چونکہ امریکہ کو افغانستان میں جنگی جرائم کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ کس طرح سے اس مسئلے سے نمٹا جاتا ہے۔
گیارہ ستمبر دوہزار ایک کے واقعے کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے دہشتگردی کے مقابلے کے بہانے افغانستان پرحملے کا حکم دیا تھا، امریکہ کے ان حملوں میں افغانستان میں طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا تھا اس کے بعد افغانستان پر امریکہ اور نیٹو کی افواج نے قبضہ کرلیا۔ افغانستان میں امریکہ کی غیر انسانی کارروائیوں نے اس کا سیاہ چہرہ پیش کیا ہے بالخصوص امریکہ نے بگرام ایئر بیس میں ایک بڑی جیل قائم کرکے اور اس میں سیکڑوں افغان شہریوں کو دہشتگردی کے شبہے میں گرفتار کرکے جسمانی ایذائیں پہنچائیں اور اس طرح اپنے لئے بڑی رسوائی مول لی ہے جبکہ وہ انسانی حقوق کے دفاع کے بلند بانگ دعوے بھی کرتا ہے۔بگرام ایئر بیس کے بہت سے قیدیوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ انہیں کس وجہ سے اس خوفناک جیل میں رکھا گیا ہے اور امریکیوں نے انہیں کس وجہ سے گرفتار کیا ہے۔ ان قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کی گئی زدو کوب کیا گیا اور ان کے مقدسات کی توہین کی گئی۔ جنوری دوہزار بارہ میں افغان حکومت کی قانونی کمیٹی سابق صدر حامد کرزئی کے حکم سے بنائی گئی۔ اس کمیٹی کا کام قیدخانوں کے بارے میں تحقیقات کرنا تھا۔ اس کمیٹی نے بگرام کے قیدیوں کے خلاف امریکی فوجیوں کی مجرمانہ بدسلوکی سے پردہ اٹھایا ہے۔اس عدالتی پیروی سے ضروری معلومات کی فراہمی ہوئی اور بعد کے مرحلے میں عالمی فوجداری عدالت افغانستان کے قیدیوں کے خلاف امریکی فوجیوں کے مجرمانہ اقدامات کا جائزہ لے گی۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ گذشتہ سولہ برس سے افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی فوجی موجودگی بے سود رہی ہے بلکہ بعض موقعوں پر امریکہ اور نیٹو کے فوجی بحران میں شدت کا سبب بنے ہیں۔ افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوجی موجودگی کا عام شہریوں پر حملوں میں وسعت آنے، دہشتگردی کے پھیلاؤ، عوام کے قتل عام اور ملک کی ویرانی کے علاوہ اور کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔امریکہ اور نیٹو کی موجودگی میں منشیات کی پیداوار میں چالیس فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ گذشتہ سولہ برس میں جبکہ افغانستان پر امریکہ کا قبضہ تھا عملی طور پر دہشتگردوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور طالبان و داعش نے بعض علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے۔