میانمار میں فوج اور مسلح قبائلی گروہوں کے درمیان جھڑپیں جاری
میانمار میں مسلح قبائلی گروہوں کے ساتھ فوج کی جھڑپیں جاری رہنے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ فوج ابھی تک حالات پر قابو نہیں پاسکی ہے۔
میانمار کے شمالی علاقوں میں مسلح قبائلی گروہوں کے درمیان جمعے دن پانچویں دن بھی جھڑپیں جاری رہیں۔ کاچین کی علیحدگی پسند ملٹری کے عسکریت پسندوں، تانگ کی فری نیشنل ملٹری اور کوگانگ ملٹری کے عسکریت پسندوں نے چوبیس نومبر کو صوبہ شان میں فوج کی ایک چھاؤنی پر کہ جو چین کی سرحد کے قریب موس کے علاقے میں واقع ہے ، حملہ کردیا جس میں آٹھ افراد ہلاک اور انتیس زخمی ہوئے۔
تقریبا ایک ماہ قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی شرکت کے ساتھ میانمار کے دارالحکومت نائپیداو (Naypyidaw) میں چار فریقی امن کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔ جس کا مقصد اس ملک میں کئی عشروں سے جاری قبائلی، نسلی اور مذہبی جھڑپوں کے خاتمے کے لئے مختلف قبائل کے مطالبات کا جائزہ لینا، ان مطالبات کے بارے میں فیصلہ کرنا اور کانفرنس میں شریک افراد کے نظریات سے آگاہی حاصل کرنا تھا۔ صحافتی حلقوں نے اس کانفرنس میں روہنگیا مسلمانوں کو شرکت کی دعوت نہ دیئے جانے کو ایک طرح کے امتیازی سلوک اور اس ملک میں مسلمانوں کے حقوق کی پامالی سےتعبیر کیا۔
یورپی ممالک کی جانب سے انسانی حقوق کے نعروں کے باوجود ان ممالک نے میانمار کے دو ملین سے زیادہ مسلمانوں کے حقوق کی وسیع خلاف ورزی کے سلسلے میں اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں ۔اس طرز عمل سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہےکہ مغربی ممالک کے حکام روہنگیا مسلمانوں کے حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی میانمار کے حکام کےاقدامات کی حمایت کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیشہ میانمار کی حکومت کی مشیر اعلی اور وزیر خارجہ آنگ سان سوچی کی طرف انگلی اٹھتی ہے کیونکہ سوچی ہمیشہ لیت و لعل سے کام لیتے ہوئے حکومت اور قبائلی گروہوں کے درمیان سیاسی توازن قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور اس طرح وہ خودمختاری کی تحریک کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔
ایسا نظر آتا ہےکہ سوچی کے سامنے مشکل آپشنز ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سوچی کو قبائل کے مطالبات کو تسلیم کرنا ہوگا اور یہ قبول کرنا ہوگا کہ یہ قبائل اور اقوام میانمار کی قوم کا اٹوٹ انگ ہیں۔ البتہ سوچی یہ باور کرانے کی بھی کوشش کر رہی ہیں کہ مسلح گروہ ہتھیار ڈالے بغیر مذاکرات میں شامل نہیں ہوسکتے ہیں۔
اس میں شک نہیں ہے کہ میانمار میں مسلح قبائل موجودہ حالات میں علیحدگی کی تحریک جاری رکھ سکتے ہیں۔ لیکن بظاہر وہ اسلحے کی مدد سے اپنے قبائلی حقوق کے حصول کے لئے بھی کوشاں ہیں۔ اس لئے فریقین کا کسی ایک بات پر اتفاق رائے پیدا کرنا بعید نظر آتا ہے۔