Dec ۲۴, ۲۰۱۶ ۱۴:۱۰ Asia/Tehran
  • اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہودی آبادکاری کے خلاف قرارداد کی منظوری، اسرائیل پر دباؤ میں اضافہ

صیہونی حکومت کی جانب سے مقبوضہ علاقوں میں جاری یہودی آبادکاری کے خلاف برسوں تک عالمی ردعمل کے انتظار کے بعد آخرکار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر تئیس چونتیس پاس کر کے، اسرائیل سے فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں یہودی آبادکاری کا عمل فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مثالی اقدام عمل میں لاتے ہوئے اسرائیل کے ہاتھوں یہودی آبادکاری اور صیہونی بستیوں کی تعمیر کی مذمت اور تعمیرات کا عمل فوری طور پر روکنے کے لئے چار ملکوں ملائیشیا، ونزوئیلا، سینیگال اور نیوزی لینڈ کی مجوزہ قرارداد کے مسودے کی منظوری دے دی۔ سلامتی کونسل کی اس قرارداد کو اس عالمی ادارے کے پندرہ میں سے چودہ رکن ملکوں کی حمایت سے منظوری دی گئی جبکہ امریکہ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

اس قرارداد کے مسودے کی بنیاد پر صیہونی حکومت سے مشرقی بیت المقدس سمیت فلسطین کے تمام مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا عمل فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس قرارداد میں تاکید کی گئی ہے کہ اسرائیل کے ہاتھوں صیہونی بستیوں کی تعمیر سے راہ حل کے وجود کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے اور اسرائیل کا یہ عمل، امن کی برقراری کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اس مثالی اقدام کے نتیجے میں اس بات کی امید کی جاتی ہے کہ سنہ سڑسٹھ کے مقبوضہ علاقوں میں صیہونی آبادکاری اور کالونیوں کی تعمیر کا عمل جاری رکھنے میں، فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے غیر قانونی اقدامات پر مخالفت کرنے سے متعلق عالمی دباؤ میں اضافہ ہو گا۔

جبکہ سلامتی کونسل کی اس قرارداد کو اسرائیل کے منھ پر ایک طمانچہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ درحقیقت دباؤ کچھ اس قسم کا رہا ہے کہ ایک عرب ملک کی حیثیت سے نہ صرف یہ کہ مصر، کہ جس نے صیہونی حکومت کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کئے ہیں، اس قرارداد کا مسودہ پیش کرنے والے ملک کی حیثیت سے سامنے آیا، بلکہ دیگر ممالک بھی منجملہ یورپی ممالک جیسے اسرائیل کے مغربی اتحادی ممالک بھی سلامتی کونسل کی اس قرارداد کی حمایت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس قرارداد پر ووٹنگ، پہلے مصر کی جانب سے ہونی تھی مگر قاہرہ پر پڑنے والے شدید دباؤ کے بعد اس نے ووٹنگ کا عمل موخر کرنے کا اعلان کر دیا مگر جمعے کے روز چار ملکوں ملائیشیا، ونزوئیلا، سینیگال اور نیوزی لینڈ نے ووٹنگ کے عمل کو آگے بڑھانے کا اقدام کیا۔

اس درمیان امریکہ کا موقف، کہ جس نے اس قرارداد کو ویٹو کرنے سے گریز کیا اور ووٹنگ میں حصہ ہی نہیں لیا، غیر متوقع تھا، جو اس قرارداد کی منظوری کا باعث بنا۔ حقیقت یہ ہے کہ بارک اوباما حکومت بھی اس ملک کی ماضی کی حکومتوں کی مانند، گذشتہ آٹھ برسوں کے دوران اسرائیل کے خلاف کسی بھی قسم کی قرارداد کو ویٹو کرتی رہی ہے، مگر ان آخری دنوں میں اس نے بھی اپنا رویہ کچھ تبدیل کیا جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف قرارداد کی منظوری کا باعث بنا۔ بعض مبصرین بارک اوباما حکومت کے اس اقدام کو، اسرائیل کی نیتن یاہو حکومت سے ایک طرح کی ناراضگی قرار دے رہے ہیں۔

جبکہ بعض دیگر ڈونلڈ ٹرمپ کے عنقریب برسر اقتدار آنے کے پیش نظر اس مسئلے کو واشنگٹن اور تل ابیب کے تعلقات کے حوالے سے قابل ذکر اہمیت کا حامل قرار نہیں دیتے۔ البتہ صیہونی حکومت کے ایک اعلی عہدیدار نے امریکی صدر بارک اوباما پر اسرائیل کے خلاف قرارداد تیار کرنے کا الزام عائد کیا ہے خاص طور سے ایسی حالت میں کہ صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے امریکہ سے اس قرارداد کو ویٹو کرنے کی درخواست کی تھی۔  دوسری جانب امریکہ میں ریپبلکن رہنماؤں نے اسرائیل مخالف قرارداد پر امریکہ کے موجودہ موقف پر کڑی تنقید کی ہے اور اسے شرمناک اقدام قرار دیا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے، جنھوں نے جمعرات کو امریکہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف اس قرارداد کو ویٹو کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا تھا، کہا ہے کہ امریکہ کے اس اقدام سے مذاکرات کے عمل میں اسرائیل کی پوزیشن بہت کمزور ہو گی اور یہ بہت بے انصافی ہے۔ امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اسرائیل اور صیہونی بستیوں کی تعمیر کے بہت بڑے حامی شمار ہوتے ہیں اور اس لئے وہ اس قرارداد کی منظوری کو نظرانداز کر سکتے ہیں۔ بنیادی طور پر صیہونی حکومت کے بارے میں بارک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مواقف میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔

ان تمام مسائل کے باوجود یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ قرارداد تئیس چونتیس کی منظوری،  باوجود یکہ اس قرارداد پر عمل درآمد کی کوئی ضمانت نہیں پائی جاتی، سیاسی اعتبار سے صیہونی حکام کے لئے ایک اہم پیغام کی حامل ہے اور وہ پیغام یہ ہے کہ فلسطینی علاقوں میں صیہونی بستیوں کی تعمیر کی پالیسی، اتنی ہی غیر انسانی، غیر منصفانہ اور غیر قانونی ہے کہ اسرائیل کا قریبی ترین اتحادی ملک امریکہ بھی بنیادی طور پر اس بات پر قادر نہیں تھا کہ متحدہ عالمی موقف کے مقابلے میں اس بار بھی استقامت کا مظاہرہ کرسکے چنانچہ اس نے ووٹنگ میں حصہ نہ لے کر اسرائیل کے خلاف قرارداد کی منظوری کی راہ ہموار کردی۔

 

 

 

ٹیگس