میانمار میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے مظالم پر تشویش
اس وقت کسی بھی عالمی ادارے یا تنظیم پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ میانمار کے مسلمانوں کے مسائل اور ان کی مشکلات کا حل ایک داخلی مسئلہ نہیں بلکہ ایک عالمی مسئلہ ہے- اس بناء پر میانمار کے مسلمانوں کے مسائل و مشکلات کا حل، عالمی برادری کے اقدامات پر منحصر ہے-
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روہنگیائی مسلمانوں کے خلاف میانمار کی حکومت کا دباؤ بدستور جاری ہے- اس تنظیم کی رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2016 سے اب تک ستاسی ہزار روہنگیا مسلمان اپنا گھر بار، کاروبار اور کھیت کھلیان چھوڑ کر چلے گئے ہیں- میانمار کی فوج نے روہنگیا کے مسلمانوں کے خلاف بہت زیادہ تشدد کیا ہےلیکن کہا جاسکتا ہے کہ اس ملک کی حکومت نے بھی میانمار کے مسلمانوں کی نسل کشی میں انتہا پسند بودھشٹوں کا بھرپور ساتھ دیا ہے- یہ مسئلہ اب کسی بھی انسانی حقوق کی تنظیم ، اقوام متحدہ اور یا اسلامی تعاون کی تنظیم پر پوشیدہ نہیں ہے - ممکن ہے کہ میانمار کی سرحدیں، بنگلادیش کی سرحدوں سے ملنے ، اور میانمار کے مسلمانوں پر تشدد اور مظالم ڈھائے جانے کے باعث، اس ملک کے مسلمانوں کو اپنے ملک میں جگہ نہ دینے پر بنگلادیش کی مذمت کی جائے لیکن اس حقیقت پر توجہ دینی چاہئے کہ بنگلادیش ایک بہت زیادہ آبادی والا ، غیرترقی یافتہ ، پسماندہ اور محروم ملک ہے اس لئے ایک ایسے ملک سے، جسے خود غربت اور معاشی و سماجی مسائل کا سامنا ہے، کیسے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ میانمار کے ہزاروں بے پناہ مسلمانوں کی بخوبی پذیرائی کرسکے- اس کے باوجود بنگلادیش کو، اس کی سیاسی توانائیوں اور خاص طور پر ایک مسلم ملک ہونے کے ناطے، رائے عامہ کی نظر میں ذمہ دار سمجھا جا رہا ہے- اگر چہ میانمار کے شمالی علاقوں میں روہنگیائی مسلمانوں کو اقوام متحدہ کی جانب سے امداد پہونچانے کا کام جاری ہے لیکن ایسا خیال کیا جا رہا ہے یہ عالمی ادارہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں بھرپور قوت و طاقت سے بہرہ مند نہیں ہے کیوں کہ وہ میانمار کی حکومت سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ مسلمانوں کو امداد پہنچانے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ کرے-
قابل ذکر ہے کہ عوامی اداروں اور تنظیموں ، اقوام متحدہ نیز اسلامی تعاون تنظیم کو میانمار کے نہتے اور مظلوم مسلمانوں کے خلاف تشدد میں اضافے پر تشویش ہے اور اسلامی تعاون تنظیم نے مسلمانوں کے خلاف تشدد کو نسل کشی سے تعبیر کیا ہے- میانمار میں اسلامی تعاون تنظیم کے خصوصی ایلچی حامد البار نے کہا ہے کہ اس اسلامی تنظیم کو چاہئے کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے کے لئے جو ایک داخلی مسئلہ نہیں ہے، اقدام کرے- میانمار کے مسلمانوں کے سلسلے میں اس طرح کے مواقف اور اظہار خیالات ایسے میں سامنے آرہے ہیں کہ عالمی برادری اس سے قبل کمبوڈیا اور روانڈا میں نسل کشی کا مشاہدہ کرچکی ہے- اب اسلامی تعاون تنظیم کو چاہئے کہ وہ اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر، روہنگیائی مسلمانوں کے خلاف جاری مظالم اور تشدد کی روک تھام کے لئے میانمار کی حکومت پر دباؤ ڈالے اور خاص حربوں اور میکنزم کا استعمال کرے- اور ان عالمی اداروں سے عالم اسلام کو بس یہی توقع ہے -