Feb ۰۴, ۲۰۱۷ ۱۵:۴۲ Asia/Tehran
  • مالٹا میں یورپی یونین کا سربراہی اجلاس

یورپی یونین کے اٹھائیس ملکوں نے جمعے کو مالٹا میں اپنے اجلاس میں دو مسائل یعنی بحیرہ روم میں پناہ گزینوں کے بحران سے مقابلےکے طریقہ کار اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی متنازعہ پالیسیوں اور یورپ پر ان کے پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا -

ان دو مسائل پر یورپی رہنماؤں کی توجہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ مسائل موجودہ حالات میں یورپ کے لئے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں- پناہ گزینوں کے بحران کے بارے میں ترکی کے ساتھ مارچ دوہزار سولہ میں ہونے والے معاہدے کے پیش نظر ترکی کے راستے پناہ گزینوں کے داخلے پر نسبتا کنٹرول کئےجانے کے ساتھ ہی اس وقت یورپی رہنماؤں کی توجہ اس طرف مبذول ہوگئی ہے کہ پناہ کی تلاش میں در در بھٹکنے والے افراد اب بحیرہ روم کے راستے سے لیبیا اور پھر اٹلی میں داخل ہو رہے ہیں- اسی سلسلے میں یورپی رہنماؤں نے مالٹا  اجلاس میں اپنے اس متحدہ موقف کا اعلان کیا ہے کہ بحیرہ روم میں کشتیوں کے ذریعے لیبیا سے سفر کرنے والے پناہ گزینوں کو لاحق خطرات کی روک تھام کی غرض سے لیبیا کے ساحلی گارڈز کی مدد کی جائے-

لیکن اس سے اہم مسئلہ جو اس وقت یورپی یونین کے ممبر ممالک کے سربراہوں اور اعلی حکام کے لئے ایک تشویش میں تبدیل ہوگیا ہے، سیاسی ، سیکورٹی اور اقتصادی مسائل کے بارے میں امریکہ کی نئی حکومت کا موقف ہے کہ جس میں امریکہ کے سابق صدر اوباما کی حکومت کے مواقف سے بنیادی فرق پایا جاتا ہے اور اسی کے پیش نطر یورپی ملکوں میں ایک خاص حساسیت پیدا ہوگئی ہے-  یورپی یونین کے بارے میں امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پہلا قدم ، اس یونین کے معاملات میں ان کا مداخلت پسندانہ موقف ہے اور دوسرا قدم، یورپی یونین کے ملکوں کو اس یونین سے علیحدہ ہونے کی ترغیب دلانا ہے- اس سلسلے میں فرانس کے صدر فرانسوا اولانڈ نے مالٹا میں یورپی یونین سے برطانیہ کے نکلنے کی حمایت میں ٹرمپ کے اظہار خیال کو ناقابل قبول قرار دیا اور کہا کہ ٹرمپ کو یورپی یونین کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے- درحقیقت یورپی یونین سے برطانیہ کے نکلنے کے تعلق سے ٹرمپ کا موقف اوباما کے موقف سے یکسرمختلف ہے-

یہ ایسے میں ہے کہ اوباما نے برگزیٹ کے ریفرنڈم سے قبل بحر اٹلانٹک کے دونوں جانب بسنے والوں کے لئے اس کے منفی نتائج کے بارے میں خبردار کیا تھا اور برطانیہ کے عوام سے اصرار کیا تھا کہ وہ برطانیہ کے یورپی سے نکلنے کی مخالفت میں ووٹ دیں- جبکہ ٹرمپ نے واشنگٹن میں، برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے کے ساتھ ملاقات میں یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کا خیرمقدم کیا ہے اور یورپی یونین کے دیگر ملکوں سے بھی ایسا ہی راستہ اختیار کئے جانے کی اپیل کی ہے- ساتھ ہی ٹرمپ کے دوسرے فیصلوں، خاص طور پر امریکہ اور میکسیکو کے درمیان حائل دیوار کھینچے جانے، سات اسلامی ملکوں کے باشندوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی اور سب سے اہم عالمی تجارتی معاہدے " ٹرانس پیسفک پارٹنر شپ" کو منسوخ کرنے سے یورپی یونین کے سربراہوں کی تشویش بڑھ گئی ہے -

اسی بناء پر مالٹا کے وزیر اعظم اور یورپی یونین کے سربراہ جوزف موسکاٹ نے امریکی صدر کے حالیہ فیصلوں پر تشویش ظاہر کی ہے اور اس اجلاس میں موجود یورپی سربراہوں نے بھی دنیا کے نامعلوم مستقبل سے مقابلے کے لئے باہمی تعاون کی ضرورت پر تاکید کی ہے- اس کے ساتھ ہی نیٹو کے بارے میں ٹرمپ کا موقف اور نیٹو کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کی ضرورت جیسا موقف بھی، اس وقت سیکورٹی کے تعلق سے یورپی ملکوں کی اہم تشویش میں تبدیل ہوگیا ہے اور روس کے ساتھ تعلقات بہتربنانے کے سلسلے میں ٹرمپ کے وعدے نے اس تشویش کو دوبالا کردیا ہے- ان سب کے باوجود دونوں مسئلے میں امریکہ کی جانب سے ہی پسپائی کا مشاہدہ کیا گیا ہے - جیسا کہ ٹرمپ نے تھریسا مے سے ملاقات میں یہ وعدہ دیا ہے کہ وہ نیٹو کو تنہا نہیں چھوڑیں گے اور انہوں نے امریکہ کے ساتھ نیٹو کے تعلقات کو خصوصی رابطے سے تعبیر کیا ہے- دوسری جانب روس کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بھی اقوام متحدہ میں امریکی مندوب نیکی ہیلی نے کہا ہے کہ جب تک روس مینسک معاہدے پر عمل نہیں کرے گا ، واشنگٹن اس کے خلاف پابندیاں جاری رکھے گا-          

ٹیگس