یمن، انسانی المیے کے دہانے پر، عالمی برادری خاموش
بین الاقوامی اداروں کی جانب سے ان رپورٹوں کے باوجود کہ یمن انسانی المیے اور بحران کے دہانے پر کھڑا ہے، یمن پر سعودی عرب کے فضائی حملے جاری ہیں اور یہ حملے اس وجہ سے جاری ہیں کہ یورپ اور امریکہ بدستور سعودی عرب کو پیشرفتہ ہتھیار فراہم کررہے ہیں۔
جرمنی کے ہفت روزہ اخبار اشپیگل نے ایک رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ یمن میں خونریز جنگ کے باوجود جرمنی نے ایک بار پھر سعودی عرب کو ہتھیار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اخبار کی رپورٹ کے مطابق جرمن حکومت نے سعودی بحریہ کو گشت زنی کے لئے مزید دو کشتیاں دینے کی منظوری دی ہے۔ اب تک سعودی عرب کو جرمنی نے دو کشتیاں دی ہیں اور سعودی عرب کو جرمنی مجموعی طور پر اڑتالیس کشتیاں دے گا۔
سعودی عرب کے لئے امریکہ اور یورپی ملکوں منجملہ جرمنی سے پیشرفتہ ہتھیاروں کی ترسیل ایسے عالم میں جاری ہے کہ ان ملکوں میں مخالف پارٹیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اپنی ان حکومتوں کے ان اقدامات پر جو کہ خود کو انسانی حقوق کا دعویدار کہتی ہیں، شدید تنقید کی ہے لیکن جرمنی اور دیگر یورپی ملکوں کی حکومتوں نے ان اعتراضات کا نوٹس نہیں لیا ہے۔ یورپی حکومتیں بالخصوص جرمنی، برطانیہ اور فرانس ان تنقیدوں کے پیش نظر سعودی عرب کے لئے جو نہایت ہی غیر جمہوری حکومت ہے، اپنے ہتھیاروں کی ترسیل کو خفیہ رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔
یمن پر سعودی عرب کی جارحیت کو دو سال کا عرصہ گزر رہا ہے۔ یمن کے عوام کی جانب سے آل سعود کے تسلط کو مسترد کئے جانے کے بعد آل سعود نے یمن کے نہتے عوام پر حملے شروع کردئے لیکن سعودی عرب کو گزشتہ دو برس کی جارحیت سے کچھ ہاتھ نہیں آیا ہے اور نہ ہی وہ یمن کے عوام پر اپنا اثر و نفوذ قائم کرنے میں کامیاب ہوسکا ہے۔ یمن پر آل سعود کے حملوں سے گرچہ یمن کی قوم متحد ہوئی ہے لیکن آل سعود کی جارحیت سے کافی تباہی اور ویرانی پھیلی ہے۔ امریکی اور برطانوی ساخت کے سعودی جنگی طیاروں کے وحشیانہ حملوں میں یمن کی صنعتی اور شہری بنیادی تنصیبات بڑی حد تک تباہ ہوگئی ہیں۔
اس بمباری میں بارہ ہزار سے زیادہ لوگ شہید ہوئے ہیں جن میں نصف تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ یمن کی تئیس ملین آبادی میں اسی فیصد لوگ غذا کی قلت کا شکار ہیں اور انہیں فوری طور پر غذائی امداد کی ضرورت ہے۔ یمن میں آذوقہ کے گودام خالی ہوچکے ہیں۔ یورپ کی انسان دوستی کی دعویدار حکومتیں ایسے عالم میں سعودی عرب کو مسلسل ہتھیار سپلائی کر رہی ہیں جبکہ یہ خبریں روزانہ سب کے سامنے آ رہی ہیں۔
سعودی عرب دنیا میں ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے اور آل سعود کے پٹرو ڈالر سے امریکہ کے ہتھیار بنانے کے بعض کارخانے چل رہے ہیں۔ انسان دوستی کی دعویدار مغربی حکومتوں کے لئے ان کی خارجہ پالیسی میں واحد معیار سیاسی اور اقتصادی مفادات ہیں۔ یہاں تک کہ انسان دوستی کے دعوؤں اور دہشت گردی سے مقابلہ میں بھی مغربی ممالک طویل مدت میں اپنے مفادات ہی مد نظر رکھتے ہیں۔ مغرب میں، مشرق وسطی میں انتہا پسندی اور یورپ میں ہونے والی دہشت گردی کے بارے میں عوام کو بھرپور آگہی اور معلومات فراہم کی گئی ہیں اور یہ بات کسی پر بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ انتہا پسندی اور تکفیری اور دہشت گرد گروہوں کے اصلی حامی سعودی عرب کے وہابی ہیں۔ یورپی ملکوں میں ہر چیز سیاسی اور اقتصادی مفادات کی مدار پر گھومتی ہے اور یہ ممالک جیسے جرمنی اپنے مفادات کے پیش نظر کم سے کم انسانی حقوق پر یا بچوں کے حقوق پر عمل نہیں کرتے۔