Jun ۲۲, ۲۰۱۷ ۱۸:۲۵ Asia/Tehran
  • سعودی ولیعہد کو ٹرمپ کا آشیرواد

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک غیرمعمولی اقدام میں، سعودی عرب کے نئے ولیعہد محمد بن سلمان کے انتخاب کے ابتدائی لمحات میں ہی مبارکباد پیش کی ہے-

سعودی عرب کے نئے ولیعہد کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیلفونی گفتگو کے بعد وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ ان دو افراد نے دہشت گردی سے مقابلے اور دوحہ کے ساتھ ریاض کے اختلافات کے حل کے بارے میں گفتگو کی ہے- ایسا شاید ہی ہوا ہو کہ امریکی صدور نے بادشاہت والے ملکوں میں ولایت عہدی کے لئے کسی فرد کے انتخاب پراسے مبارکباد پیش کی ہو وہ بھی اس طرح کی خبروں کے اعلان کے فورا ہی بعد- 

سعودی شاہ سلمان نے عجلت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ولیعہد کی بیعت کی رسومات ادا کرواکے سیاسی میدان میں استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ اس طرح سے مخالفت میں اٹھنے والی ہر آواز کو مکمل طورپر دبایا جاسکے - مگر شاہ سلمان کا یہ عجلت پسندانہ اقدام ، عملی طورپر سعودی عرب کے سیاسی میدان میں کشیدگی بڑھنے پر منتج ہوا ہے

محمد بن سلمان کے ولیعہد بننے سے نہ فقط آل سعود میں اقتدار کی دوڑ ختم نہیں ہوئی بلکہ آل سعود کے اندرونی اختلافات اور کھل کر سامنے آ گئے اور سوشل میڈیا میں وائرل ہونے والی ویڈیو میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے کہ بیعت کی تقریب میں ایک سعودی شہزادے نے محمد بن سلمان کے قریب آکر انہیں مخاطب ہوکر دھمکی دی اور بن سلمان کے گارڈز نے شہزادے کو زبردستی پیچھے دھکیل دیا۔ اس سعودی شہزادے کے ساتھ اس حرکت کے بعد کیا ہوا، اس سلسلے میں کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ نئے ولیعہد کے منتخب ہونے سے قبل سعودی شاہی خاندان میں بغاوت کے امکانات ظاہر کئے جارہے تھے لیکن اس ویڈیو کے وائرل ہونے سے شاہی خاندان میں پھوٹ کے امکانات واضح ہوگئے ہیں۔ سعودی عرب میں رونما ہونے والی تبدیلیوں میں امریکی اور صیہونی حکام کی دلچسپی اور ان کی جانب سے ان تبدیلیوں کا خیرمقدم اس حوالے سے ان کے اغراض و مقاصد کو بیان کرتا ہے جیسا کہ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی نوعیت کا بے مثال اقدام عمل میں لاتے ہوئے نئے ولیعہد کے انتخاب پر محمد بن سلمان کو فوری طور پر مبارکباد پیش کی -

 محمد بن سلمان کہ جو گذشتہ دوبرسوں کے دوران جانشین ولیعہد اور وزیر دفاع کے عہدہ سنبھالے ہوئے تھا ، امریکہ کی نئی حکومت خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے خاص اہمیت رکھتا تھا - کہا جا رہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کے پہلے غیر ملکی دورے کی حیثیت سے سعودی عرب کے انتخاب میں، محمد بن سلمان کا کردار بہت اہم تھا - البتہ ٹرمپ بھی محض اس جوان سعودی شہزادے کے اصرار کے سبب ریاض نہیں آیا تھا بلکہ چارسو ارب ڈالر کے ہتھیاروں کے معاہدے کا وعدہ تھا جواسے کھینچ کر ریاض لایا - ریاض میں سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز نے ٹرمپ کی خوب خاطر کی اور اسے گرانبہا تحفے تحائف سے بھی نوازا-

سعودی بادشاہ نے اسی طرح کئی بادشاہوں اور اسلامی ملکوں کے صدور اور سربراہوں کو بھی ریاض دعوت دی تھی تاکہ نیٹو طرز کے عرب فوجی اتحاد کی تشکیل کے لئے ٹرمپ کے نظریے کو عملی جامہ پہنائے- ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے اختتام پر،  جو رقص شمشیر کے ساتھ تھا ، امریکی صدر کے طیارے کو اجازت ملی کہ وہ ریاض اور تل ابیب کے درمیان پہلی پرواز انجام دے تاکہ  بعض میڈیا کے مطابق ٹرمپ،  سعودی عرب کے بادشاہ کا  پیغام دوستی' صیہونی حکومت کے وزیر اعظم تک لے جائیں- امریکی صدر کے لئے آل سعود کی شاہانہ مہمانی کے ٹھیک ایک مہینے کے بعد، ایک غیرمعمولی قدم اٹھاتے ہوئے پہلی بار سعودی عرب کی تاریخ میں بادشاہ کے بیٹے کو ولیعہد کے طور پر منتخب کیا گیا - جبکہ اس ملک کے بانی ملک عبدالعزیز نے وصیت کی تھی کہ اس ملک کا تخت بادشاہی، بھائی سے بھائی میں منتقل ہوتا رہے- 

اس وقت امریکی حکومت  ، کہ جو ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں مغربی ایشیاء کی تبدیلیوں کے بارے میں خاص نظر رکھتی ہے ، کی مدد سے سعودی عرب کے قدامت پسند ڈھانچے میں تیزی سے اہم تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں- کہا یہ جا رہا ہے کہ واشنگٹن میں ٹرمپ اور ریاض میں محمد بن سلمان  کی توسیع پسندی اور مہم جوئی، مغربی ایشیاء کے بحران زدہ علاقے کو پہلے سے بھی زیادہ بحران، جنگ اور قتل عام سے دوچار کردے گی - صرف یمن کی تباہ کن جنگ پر نظر ڈالنے سے کہ جس کا اصلی سبب سعودی عرب کا موجودہ ولیعہد تھا، علاقے میں آئندہ دنوں میں رونما ہونے والی صورتحال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے- اگرچہ عراق، شام  اور حتی قطر کی جانب سے جاری مزاحمتوں سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ملک سلمان کے خاندان پر امریکی حمایت کا سایہ ہونے کے باوجود، عالم عرب پر سعودی عرب کی بالادستی، کہ جس کا خواب محمد بن سلمان دیکھ رہا ہے، کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا-

ٹیگس