پیرس میں منافقین کے دہشت گرد گروہ ایم کے او کا اجلاس
فرانس کے دارالحکومت پیرس میں حالیہ چند برسوں کے دوران متعدد بار دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں اور اب اسی شہر میں منافقین کے دہشت گرد گروہ ایم کے او کی سالانہ کانفرنس بلائی جا رہی ہے۔ تقریبا ایک سال قبل بھی پیرس میں اسی طرح کی ایک کانفرنس بلائی گئی تھی۔
جس میں سعودی عرب کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ ترکی الفیصل نے شرکت کی تھی۔ ترکی الفیصل نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف کامیابی کے لئے دہشت گرد گروہ ایم کے او کی ہمہ گیر حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اب بھی امریکہ سے شائع ہونے والے اخبار نیویارک ٹائمز نے لکھا ہےکہ اس دہشت گرد گروہ کے تعاون کے ساتھ ایران میں تبدیلی بہت قریب ہے۔
منافقین کے دہشت گرد گروہ ایم کے او نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ابتدائی برسوں میں ہی ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردانہ کارروائیوں کا وسیع پیمانے پر آغاز کر دیا تھا۔
اس دہشت گرد گروہ کے عناصر نے سنہ انیس سو اناسی سے لے کر سنہ انیس سو اکیاسی تک کے دو برسوں کے دوران ایران کے بہت سے حکام، انقلابی مجاہدین اور عام شہریوں کا قتل عام کیا اور ان دہشت گردانہ واقعات کی ذمہ داری بھی قبول کی۔ اٹھائیس جون سنہ انیس سو اکیاسی میں حزب جمہوری اسلامی کے ہیڈکوارٹر میں بم دھماکہ، وزیر اعظم ہاؤس میں بم دھماکہ، جولائی سنہ انیس سو اٹھاسی میں فروغ جاویدان کے نام سے مسلح کارروائیوں کا آغاز، اپریل سنہ انیس سو بانوے میں دنیا کے تیرہ ممالک میں ایرانی سفارت خانوں اور قونصل خانوں پر حملے، بیس جون سنہ انیس سو چورانوے میں حضرت امام رضا ع کے حرم مطہر میں بم دھماکہ ، کہ جس میں پچیس افراد شہید اور ستّر زخمی ہوگئے تھے، اس دہشت گرد گروہ کے اقدامات کا صرف ایک حصہ ہے۔ یہ اقدامات اس گروہ نے امریکہ، فرانس اور اپنے دوسرے حامیوں کی مدد سے انجام دیئے تھے۔
برطانیہ سے شائع ہونے والے اخبار انڈی پینڈنٹ نے امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف دہشت گردی کی حمایت کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ جارج بش کے زمانے میں واشنگٹن کی جانب سے دہشت گرد گروہوں کی مالی حمایت اپنے عروج پر پہنچ گئی اور اوباما کی حمایت سے بھی اسی پالیسی کو جاری رکھا گیا۔ باراک اوباما نے سنہ دو ہزار آٹھ میں ایران کے اسلامی جمہوری نظام کے مخالف گروہوں کی مدد کے لئے چار سو ملین ڈالر سے زیادہ کی رقم مختص کی۔
یورپی یونین اور امریکہ نے کچھ عرصہ قبل تک منافقین کے دہشت گرد گروہ ایم کے او کا نام دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کر رکھا تھا۔ لیکن پھر امریکہ نے یوٹرن لیتے ہوئے اسے اس فہرست سے خارج کر دیا اور اس کی حمایت کرنا شروع کر دی اور اب امریکی حکام اس گروہ کے بارے میں اس انداز میں باتیں کرتے ہیں جیسے ان کو اس دہشت گرد گروہ کے دہشت گردانہ اقدامات کے بارے میں کچھ پتہ ہی نہیں ہے۔
بہت سے ثبوتوں کے باوجود امریکہ کے اس وقت کے وزیر جنگ ڈونلڈ رمز فیلڈ نے پچیس جون سنہ دو ہزار چار کو اس دہشت گرد گروہ کے عناصر کو ایسے افراد قرار دیا تھا جن کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ امریکہ کے معروف نامہ نگار سیمور ہیرش نے کچھ عرصہ قبل انکشاف کیا تھا کہ منافقین کے بعض عناصر نے جارج بش کے زمانے میں امریکہ میں عسکری تربیت حاصل کی تھی۔ امریکہ کے این بی سی چینل نے بھی سنہ دو ہزار بارہ میں انکشاف کیا تھا کہ اسرائیل نے ان میں سے بعض عناصر کو ایران کے ایٹمی سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ کی تربیت دی ہے۔
ان تمام امور کے پیش نظر پیرس کانفرنس امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب اور بعض دوسری طاقتوں کے وفود کی جانب سے حمایت کے اعلان کے مقام میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اس حمایت اور اسٹریٹیجک غلطی کے منفی اثرات چند عشروں سے ایران اور عراق میں نمایاں ہوئے اور موجودہ صورتحال میں واشنگٹن، تل ابیب اور پیرس خطے میں دہشت گردوں کی حمایت کا عمل دہرانا چاہتے ہیں۔
پیرس میں منافقین کے دہشت گرد گروہ ایم کے او اور ان کے حامیوں کی مشترکہ کانفرنس ایسے حالات میں ہو رہی ہے کہ جب فرانس سمیت یورپی ممالک دہشت گردی کا مزہ چکھ چکے ہیں اور دہشت گردی سے ان کو جو تشویش لاحق ہے اس کی وجہ سے وہ اس بات کے مدعی ہیں کہ وہ دہشت گردی کے مقابلے میں پرعزم ہیں لیکن اس سلسلے میں عملی طور پر وہ شفافیت کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں۔
فرانس نے دہشت گردی کی حمایت کرتے ہوئے ان عناصر کے قدموں تلے سرخ قالین بچھایا ہے جو ہزاروں بے گناہ انسانوں کے خون سے زمین کو سرخ کر چکے ہیں۔ دہشت گردوں کی میزبانی کرنے والے ممالک نے اسٹریٹیجک غلطی کا ارتکاب کیا ہے اور اپنے اس عمل کے ذریعے انہوں نے دنیا کو دہشت گردی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایران میں سترہ ہزار افراد کا شہید ہونا اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔