Aug ۰۹, ۲۰۱۷ ۱۷:۵۴ Asia/Tehran
  • افغان صدر کا دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو انتباہ

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اس ملک کے شمالی صوبے سرپل کے علاقے میرزا اولنگ کے باشندوں کے قتل عام کو جنگی جرم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کی فوج اور سیکورٹی فورس اس حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کا انتقام لے کر رہے گی-

صدر افغانستان اشرف غنی نے کسی خاص گروہ کا نام لئے بغیر کہا کہ دین اور وطن کے دشمنوں نے میرزا اولنگ علاقے میں یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ کسی حد اور حدود کے قائل نہیں ہیں- افغانستان میں تشدد آمیز واقعات میں شدت آنے اور اس ملک میں متعدد دہشت گرد گروہوں کی موجودگی کے سبب ان کے جنگی حربوں اور حملوں میں بھی تبدیلی آئی ہے اور افغانستان میں خاموش شکل میں بہت سے جرائم انجام پا رہے ہیں-

مسجدوں پر حملے اور نمازیوں کا قتل عام، دیہی علاقوں پر قبضہ اور وہاں کے باشندوں کا بے دردی کے ساتھ قتل عام اور ان کی لاشوں کو مسخ کرنا اور ساتھ ہی سفارتخانوں اور سفارتی اہلکاروں کے رہائشی علاقوں پر حملے، ایک منظم اور ہم آہنگ منصوبے کے ساتھ انجام پا رہے ہیں تاکہ اس ملک میں فرقہ وارانہ جنگ کو ہوا دیں اور پراکسی وار کو جاری رکھیں-

طالبان گروہ نے میرزا اولنگ علاقے کے ہولناک قتل عام کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے جبکہ دیگر دہشت گرد گروہ بھی کسی نام و نشان کے بغیر عام شہریوں کا قتل عام کر رہے ہیں اور افغانستان کی حکومت بھی اس تعلق سے کسی ذمہ داری کو قبول نہیں کرتی اور بین الاقوامی حلقے بھی ان واقعات سے با آسانی چشم پوشی کرلیتے ہیں-

ان حالات میں ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ افغانستان کے صدر کا اظہار ہمدردی اور اس واقعے پر ان کا اظہار افسوس، افغانستان میں دہشت گردوں کے جرائم کی بھینٹ چڑھنے والوں کے اہل خانہ کے غم و آلام میں کسی حد تک کمی آنے کا سبب بنے گا کیوں کہ ان مسائل و مشکلات کی اہم وجہ ، حکومت کی بری کارکردگی اور اس کے اندرونی اختلافات بتائے جاتے ہیں-

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق افغان فوج نے صوبہ سرپل کے علاقے میرزا اولنگ کو طالبان اور داعش کے دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد کرانے کے لئے اپنی کارروائیاں شروع کردی ہیں دہشت گردوں نے دوسو سے زائد یرغمالیوں کو رہا کر دیا ہے تاہم ابھی بھی ایک سو عام شہری دہشت گردوں کے قبضے میں ہیں جن میں بیشتر تعداد شیعہ مسلمانوں کی ہے-

واضح رہے کہ تکفیری دہشتگردوں، طالبان اور داعش نے ہفتہ کے روز 150 کنبہ کے لوگوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ اور تقریبا 60 کے قریب افراد کو بے دردی سے قتل کر دیا تھا -

افغان امور کے ماہر سید اسحاق دلجو حسینی کہتے ہیں کہ حالیہ مہینوں میں افغانستان میں سیکورٹی کی صورتحال بہت زیادہ تشویشناک ہوگئی ہے اور حکومت مخالف مسلح گروہوں اور دہشت گرد گروہوں نے جنگ میں شدت پیدا کردی ہے- افغانستان کی قومی اتحاد حکومت کو اس ملک کے حالات کا صحیح طورپر ادراک کرنا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا اور حکومت کے اراکین رفتہ رفتہ مختلف بہانوں سے حکومتی ڈھانچے سے کنارے لگا دیئے گئے اور صرف خاص افراد ہی حکومت میں باقی رہ گئے-

افغانستان میں جنگ کے جاری رہنے میں جو چیز اہم اور فیصلہ کن کردار کی حامل ہے وہ اس ملک میں امریکہ کی فوجی موجودگی اور اس موجودگی کی توجیہ کے لئے تشدد پسندانہ پالیسیوں پر عملدرآمد کرنا ، اور اسی طرح افغانستان میں طالبان کی خونریز جنگ کا جاری رہنا ہے کہ جو افغان حکومت کی امن کی کوششوں کے ناکام ہونے کا باعث بنی ہے- متعدد دہشت گرد گروہوں منجملہ داعش کی بھی افغانستان میں موجودگی، امریکہ کی جانب سے بحران کو جاری رکھنے کی غماز ہے-

افغانستان کے مسائل کے ماہر کامبخش نکوئی کہتے ہیں " افغانستان کے معاشرے پر حکمراں ڈھانچوں اور اصالت کے لحاظ سے تکفیری اور دہشت گرد گروہ داعش کا افغانستان میں کوئی اڈہ نہیں ہے لیکن بعض طاقتور ممالک اپنے اہداف کے حصول کے لئے اسے مضبوط کرنے کے درپے ہیں- 

بہرصورت اگرچہ طالبان یہ دعوی کر رہے ہیں کہ  میرزا اولنگ کے ہولناک قتل عام میں اس کا ہاتھ نہیں ہے لیکن یہ گروہ جنگ کو ہوا دینے کے ذریعے افغانستان میں تشدد اور جرائم کے جاری رہنے کے ایک عامل میں تبدیل ہوگیا ہے- اس بناء پر افغانستان کے عوام کے نقطہ نگاہ سے طالبان گروہ ، کہ جو اس ملک کے عوام کی حفاظت اور قوم پرستی کا دعویدار ہے، امریکہ کے ساتھ  مل کر، افغانستان کی تاریخ میں سیاہ کارنامے رقم کر رہا ہے کہ جو مستقبل میں افغانستان میں پشتونوں کے لئے ننگ و عار اور بدنامی کا باعث بنیں گے-

ٹیگس