سعودی عرب میں مسلح افواج اور انتظامیہ میں اعلی سطح پر برطرفیاں اور تقرریاں
سعودی عرب کے فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز نے پیر کے روز اس ملک کی مسلح افواج اور انتظامیہ میں اعلیٰ ترین سطح پر برطرفیاں اور تقرریاں انجام دی ہیں۔
عرب میڈیا کے مطابق شاہ سلمان کی جانب سے جاری فرمان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کی فضائیہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل محمد بن عوض سحیم اور بری فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عبدالرحمان بن صالح البنیاں کو ان کے عہدے سے برطرف کرتے ہوئے جبری طور پر ریٹائر کردیا گیا ہے۔ جنرل سحیم کی جگہ میجر جنرل فیاض بن حامد الرویلی جب کہ فواد الروائلی کو لیفٹیننٹ جنرل عبدالرحمان بن صالح البنیاں کی جگہ ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ دوسری جانب شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ایک شاہی فرمان کے ذریعے شہزادہ فہد بن بندر بن عبدالعزیز کو ان کے عہدے سے بٹا کر شہزادہ بندر بن سلطان بن عبدالعزیز کو الجوف کا گورنر مقرر کردیا ہے۔
سعودی عرب کے اعلی کمانڈروں کی برطرفی چند پہلوؤں سے قابل غور ہے۔ سعودی عرب نے گذشتہ چند مہینوں کے دوران اعلی سطح پر سیاسی، فوجی اور سیکورٹی شعبوں میں برطرفیاں اور تقرریاں انجام دی ہیں کہ جسے سیاسی تجزیہ نگاروں نے سعودی بادشاہ کی نرم بغاوت کا نام دیا ہے ۔ موجودہ سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کو سعودی عرب میں اقتدار پر قبضے کے لئے، خاندان آل سعود کے ممکنہ ردعمل سے لاحق تشویش اس بات کا باعث بنی ہے کہ سلمان بن عبدالعزیز اعلی عہدیداروں کی برطرفیاں اور تقرریاں انجام دیں۔ اقتدار کی جنگ کا مسئلہ آل سعود کی نمایاں خصوصیات میں سے ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کا اعتراف مغربی میڈیا نے بھی اپنی رپورٹوں میں کیا ہے۔
بی بی سی نے کچھ عرصہ قبل ایک ڈاکومنٹری پروگرام میں " آل سعود، اقتدار کی جنگ میں الجھا خاندان" کے زیر عنوان آل سعود خاندان میں اقتدار کی رسہ کشی اور بدعنوانیوں کے وسیع پہلوؤں کا جائزہ لیا تھا۔ سعودی حکومت مخالف سعد الفقیہ نے اس ڈاکومنٹری پروگرام کے ایک حصے میں کہا کہ سعودی عرب کے شاہی خاندان کے افراد کی زندگی خود پرستی اور نرگسیت کا شکار ہے اور یہی افکار اقتدار پر اپنی اجارہ داری کے اقدامات کا باعث بنے ہیں۔
ایسے ماحول میں سعودی عرب کے ولیعہد کی حیثیت سے اپنے بیٹے کا تعین اس ملک میں اقتدار کی جنگ میں شدت کا باعث بنا ہے۔ ان ہی تشویشوں کے دائرے میں برطرفیاں اور تقرریاں صرف سیاسی میدان تک ہی محدود نہیں رہ گئی ہیں بلکہ سیکورٹی اور فوجی میدانوں میں بھی اہم تبدیلیاں انجام پائی ہیں کہ جو اس امرکی غماز ہیں کہ شاہ سلمان کو اقتدار پر مکمل طور پر قابض ہونے اور اقتدار کی منتقلی میں بہت زیادہ مشکلات اور ردعمل کا سامنا ہے۔
ایک اہم مسئلہ کہ جو سعودی فوج کے کمانڈروں کی برطرفی میں موثر رہا ہے اور درحقیقت سعودی عرب کے فوجی کمانڈروں کی سطح پر تبدیلیاں انجام پانے کا باعث بنی ہیں، درحقیقت علاقے میں فوجی میدان میں آل سعود کی روز افزوں ناکامیاں ہیں۔ گذشتہ مہینوں کے دوران آل سعود کی جارح افواج کو مزاحمتی فورسیز کے ہاتھوں سخت ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اور سعودی عرب میں انجام پانے والی برطرفیوں کی نئی لہر یمن کی جنگ میں سعودی عرب کی ناکامیوں کے آفٹر شاکس کی غماز ہے۔
سلمان بن عبدالعزیز کے بیٹے کو ایسی حالت میں سعودی عرب کا ولیعہد بنایا گیا ہے کہ سعودی خاندان کے بانی ملک عبدالعزیز کے منشور اور وصیت کے مطابق اقتدار ایک بھائی سے دوسرے بھائی تک منتقل ہو اور جب تک اس کے بیٹے زندہ ہوں تیسری نسل کے شہزادوں تک نہ پہنچے۔ آل سعود نے 1932 میں اقتدار ہاتھ میں لیا تھا اور اس وقت سے ہی ہمیشہ اس خاندان میں اقتدار کی جنگ کا مسئلہ درپیش رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خاندان سعود میں ہمیشہ دو گروہوں سدیری اور شمری کے درمیان تنازعہ رہا ہے۔ ان دونوں گروہوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری رہی ہے۔
عبدالعزیز کے مرنے کے بعد سدیری خاندان کے تین افراد تھے جن میں شاہ سلمان بھی شامل ہے اس وقت اگر یہ طے پا جائے کہ اقتدار سدیری خاندان میں ہی باقی رہے گا تو شمری خاندان کے افراد کہ جنہیں ملک سلمان کے برسر اقتدار آتے ہی اہم عہدوں سے برطرف کردیا گیا اور ایک طرح سے ان کا صفایا کردیا گیا ، آسانی سے اس مسئلے سے چشم پوشی نہیں کریں گے اور وہ محمد بن سلمان کو سعودی عرب کی بادشاہت کے عہدے پر قبول نہیں کریں گے اور یہ مسئلہ بھی سعودی خاندان میں ایک اور جنگ چھیڑ جانے کا باعث بن سکتا ہے-
گذشتہ سال سعودی عرب میں، اقتدار پر اپنا مکمل تسلط حاصل کرنے کے شاہ سلمان کے بغاوت آمیز اقدامات کے خلاف، آل سعود کے سینئر شہزادوں نے ایک طومار پر دستخط کئے تھے- سعودی عرب میں رونما ہونے والی تبدیلیاں ، خاندان آل سعود میں اختلافات کے برملا ہونے اور اس میں شدت آنے کی غماز ہیں کہ جس کے نتیجے میں اس حکومت کی بنیادیں متزلزل ہوں گی اور وہ مزید مضمحل ہوتی جائے گی-