گوانتانامو جیل بند نہ کئے جانے پر روس کا اظہار تشویش
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے بدھ کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں کہا کہ گوانتانامو جیل کو باقی رکھنے کا امریکی حکومت کا فیصلہ تشویشناک ہے اور اس جیل میں قیدیوں کو مقدمہ چلائے بغیر اور کسی عدالتی کاروائی کے بغیر، قید کر رکھا ہے۔
لاوروف نےاسی طرح بعض ملکوں کے خلاف امریکی الزامات کے بارے میں کہا کہ بعض ملکوں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام ، یکطرفہ اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے بہانے سے کیا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کا مسئلہ ، عالمی سطح پر اپنے مخالف اور حریف ملکوں پر دباؤ ڈالنے کے ایک امریکی ہتھکنڈے میں تبدیل ہوگیاہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ امریکہ، سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا ملک ہے۔ امریکی وزارت خارجہ نے اپنی سالانہ رپورٹوں میں زیادہ تر، روس میں انسانی حقوق پر سوال اٹھایا ہے۔ روس نے بھی اس کے بالمقابل انسانی حقوق سے متعلق امریکی کارکردگی کو ہدف تنقید بنایا ہے اوراس سلسلے میں روسی وزارت خارجہ نے، امریکہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی منجملہ بدنام زمانہ گوانتاناموجیل کی سرگرمیاں جاری رہنے کے بارے میں، امریکہ کی منفی کارکردگی سے متعلق رپورٹیں شائع کی ہیں۔
انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں نے بارہا گوانتانامو جیل کے بارے میں شکایت کی ہے کہ جس کے کھولے جانے کے وقت سے اب تک مجموعی طورپر سات سو اسّی افراد کو بدترین حالت میں کال کوٹھریوں میں رکھا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے بارہا خوفناک گوانتانامو جیل بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے، ان کے ان انتباہات کے باوجود امریکی حکمراں اس مطالبے پر کوئی توجہ نہیں کر رہے ہیں اور یہ خوفناک جیل ابھی تک بند نہیں کی گئی ہے۔
گوانتانامو جیل کو امریکہ کے سابق صدر جارج بش کے زمانے میں خلیج گوانتانامو میں جنوری سنہ دو ہزار دو میں بنایا گیا۔ اس جیل کی تعمیر کا مقصد ان افراد کو یہاں قید میں رکھنا بتایا گیا جن کو امریکی قیادت میں بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران گرفتار کیا گیا۔
گوانٹانامو جیل میں قیدیوں کو دی جانے والی ایذاؤں کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھائی گئی ہے۔ ایذارسانی کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر نیلس ملرز Nils Melzer نے دسمبر 2017 میں اعلان کیا تھا کہ ان کو ایسے قیدی کے بارے میں معلومات دریافت ہوئی ہیں کہ جسے گوانتانامو جیل میں سخت ایذائیں دی جارہی ہیں۔ اگرچہ امریکہ کے سابق صدر بارک اوباما نے اس خوفناک جیل کو بند کرنے کا وعدہ دیا تھا اس کے باوجود ریپبلکن کے زیر تسلط امریکی کانگریس میں، اس سلسلے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی اوباما یہ دعوی کر رہے تھے کہ اس جیل کا باقی رہنا امریکی اقدار کے خلاف ہے اور اس سے دنیا میں ان کے ملک کی پوزیشن اور ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ کانگریس کے اس موقف کو، موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت حاصل ہوگئی اور اس سلسلے میں ٹرمپ نے جنوری 2018 کے اواخر میں گوانتانامو جیل کی سرگرمیاں جاری رہنے کے تعلق سے ایک حکم نامے پر دستخط کردیئے ۔
امریکی صدر کے اس حکم کی بنیاد پر اس ملک کی فوج دیگر قیدیوں کو بھی گوانتانامو جیل بھیج سکتی ہے۔ اس طرح سے ٹرمپ نے ریپبلکن کے زیر تسلط کانگریس کی آواز میں آواز ملاکر، گوانتانامو جیل کی سرگرمیاں جاری رہنے پرتاکید کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی گوانتانامو جیل کی سرگرمیاں جاری رہنے کے بارے میں اعتراضات اور احتجاجات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ جنوری 2018 کے اواسط میں گوانتانامو جیل کے گیارہ قیدیوں نے ٹرمپ سے شکایت کی تھی کہ انہیں مسلمان ہونے کے سبب غیرقانونی طور پر جیل میں رکھا گیا ہے۔ اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ گوانتانامو جیل امریکہ کے لئے کلنگ کا ٹیکہ اور ساتھ ہی انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے واشنگٹن کے جھوٹے موقف کی آشکارہ علامت ہے۔ خاص طور پر ایسے میں کہ جب انسانی حقوق کی تنظیموں نے بارہا اس جیل اور اس کی سرگرمیوں کے جاری رہنے پر کڑی تنقید کی ہے-