امریکہ کے ساتھ تعاون بہت بڑی غلطی تھی: خواجہ آصف
پاکستان کے وزیر خارجہ نے ماضی میں واشنگٹن کے ساتھ اسلام آباد کے تعاون کو ایک بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ تعاون ناقابل تلافی نتائج کا حامل تھا۔
خواجہ محمد آصف نے ایک بیان میں امریکہ پر اپنے عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد اب وائٹ ہاؤس کے ساتھ تعاون جیسی خطا کا مرتکب نہیں ہوگا اور پاکستانی عوام کے مفادات کو امریکی خواہشات کی بھینٹ چڑھنے نہیں دے گا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ نے امریکہ کے ساتھ تعاون کے تعلق سے ایسے میں ندامت اور پشیمانی کا اظہار کیا ہے کہ اس سے قبل تک مختلف سیاسی اور مذہبی حلقے امریکہ کے ساتھ تعاون کے نتائج خاص طور پر افغان عوام کے قتل عام کے بارے میں خبردار کر چکے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی خواجہ محمد آصف کے یہ اظہار خیالات چند جہات سے قابل توجہ ہیں۔ اول یہ کہ اسلام آباد کی حکومت ایسے میں امریکہ کے ساتھ تعاون کو ماضی میں بڑی غلطی قرار دے رہی ہے کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات بہت زیادہ کشیدہ ہوگئے ہیں اور امریکہ بدستور پاکستان مخالف اپنے دھمکی آمیز بیانات جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسی وجہ سے پاکستانی حکام اس طرح سے بیان دے رہے ہیں گویا انہیں واشنگٹن کے ساتھ تعاون کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ مسلم لیگ نواز اس کوشش میں ہے کہ پاکستانی عوام کے امریکہ مخالف جذبات کی لہرمیں خود کو بھی شامل کرکے، اپوزیشن پارٹیوں کے دباؤ کے مقابلے میں اپنی پوزیشن کو ایک طرح سے مستحکم ظاہر کرے اور یہ ظاہر کرے کہ پاکستان کی حکومت نے امریکہ مخالف موقف اختیار کر رکھا ہے اور وہ پاکستانی عوام کے ساتھ ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کی حکومت کو اپنے دیرینہ اور ایٹمی حریف ہندوستان کے ساتھ توازان برقرار کرنے کے لئے علاقائی و بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی کا آغاز، جارج بش کے دورہ صدارت میں 2006 سے ہوا۔ اگرچہ امریکہ نے 2001 میں افغانستان پر حملے میں پاکستان کے تعاون کی قدردانی کرتے ہوئے پاکستان کو اپنا غیر نیٹواتحادی کا درجہ دیا لیکن افغانستان میں امریکی فوجیوں کے پھنس جانے کے بعد، امریکہ کے سیاسی اور فوجی حکام نے پاکستان کی حکومت پر، افغانستان میں ٹھوس تعاون نہ کرنے کا الزام لگایا۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں پر امریکہ کے ہوائی حملوں میں شدت آنے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوگئے لیکن موجودہ صدر ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی اس کے اور دیگر امریکی حکام کے پاکستان مخالف الزامات میں تیزی آگئی کہ جس سے علاقائی توازن اور ان کے درمیان باہمی تعاون بھی اثر انداز ہوا ہے۔
پاکستان میں فوجی مسائل کے ماہر محمود شاہ افسر کہتےہیں: امریکہ افغانستان میں امن کا خواہاں نہیں ہے بلکہ وہ صرف اس کوشش میں ہے کہ امن کے عمل کو چیلنج سے دوچار کرکے اور پاکستان کے خلاف تنقیدیں کرکے بعض ملکوں کی ترقی و پیشرفت میں روڑے اٹکائے۔ اسی سبب سے واشنگٹن ہندوستان کی حمایت کر رہا ہے۔ بہر صورت پاکستانی حکام نے عملی طور پر ثابت کردیا ہے کہ وہ امریکہ اور نیٹو کے ساتھ معاملے کے لئے موقع سے فائدہ اٹھانے سے نہیں چوکتے ہیں اور چین اور روس کی سمت پاکستان کے رجحان نے بھی یہ ظاہر کردیا ہے کہ اسلام آباد کے پاس بھی مختلف آپشنز علاقائی اور بین الاقوامی تعاون کو مستحکم کرنے کے لئے پائے جاتے ہیں اور اگر امریکہ افغانستان کے تعلق سے پاکستان کے مطالبات اور اس ملک کی تبدیلیوں میں ہندوستان کا کردار کم ہونے پر توجہ نہیں دے گا تو جنگ افغانستان کی پیچیدگیوں کے سبب امریکہ کو افغانستان میں کامیابی کا کوئی موقع ہاتھ نہیں آئے گا۔
بہر صورت یہ پہلی بار نہیں ہے کہ پاکستان کی حکومت نے افغانستان پرحملے میں امریکہ کا ساتھ دینے کو غلطی بتایا ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اگر امریکی حکومت اسلام آباد کے مقابلے میں نرمی سے پیش آئے تو پاکستان دوبارہ واشنگٹن کے ساتھ تعاون کرنا نہیں چاہے گا۔