یوم نکبت کے موقع پر اسرائیل کو آل خلیفہ کا تحفہ، شام پر حملے کی حمایت
بحرین کے وزیرخارجہ خالد بن احمد آل خلیفہ نے شام پر اسرائیل کے میزائلی حملے کی حمایت کرتے ہوئے اسے اسرائیل کے حق دفاع سے تعبیر کیا ہے
بعض عرب ممالک کے درمیان صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی دوڑ شروع ہے کہ جس میں جنوری دوہزار پندرہ میں سعودی عرب میں سلمان بن عبدالعزیز کے اقتدار تک پہنچنے کے بعد تیزی آگئی ہے- دوہزارپندرہ سے پہلے بھی خلیج فارس کے بعض عرب ممالک اور اسرائیلی حکومت کے درمیان تعلقات برقرار تھے تاہم یہ تعلقات اعلانیہ نہیں ہوئے تھے-
خلیج فارس تعاون کونسل ، خاص طور سے جون دوہزارسترہ کے بعد کہ جب قطر اور اس کونسل کے تین دیگر اراکین سعودی عرب ، بحرین اور متحدہ عرب امارات کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی ، دو دھڑوں میں تقسیم کے دہانے پہنچ گئی ہے-
سعودی عرب ، بحرین اور امارات نے کہ جو خلیج فارس تعاون کونسل کا ایک قطب شمار ہوتے ہیں، اسرائیل کے بارے میں مشترکہ پالیسی اختیار کرلی ہے- یہ مشترکہ خارجہ پالیسی اس غاصب حکومت کو اعلانیہ طور پر تسلیم کرنے، تعلقات کو معمول پرلانے اور مضبوط کرنے نیزان ملکوں کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات سے فلسطین کو باہر نکالنے پر مشمتل ہے-
سب سے پہلی بار سعودی ولیعھد محمد بن سلمان نے مارچ دوہزاراٹھارہ میں امریکہ کے دورے کے موقع پر صیہونی حکومت کوتسلیم کرنے کا اعلان کیا اور پھر اس کے بعد اب بحرین کے وزیرخارجہ کے بیانات اس حقیقت کے عکاس ہیں کہ آل خلیفہ بھی اسرائیل کے موضوع میں آل سعود کی تابع ہے-
آل خلیفہ بھی امریکی سفارتخانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کے سلسلے میں سعودی عرب جیسی پالیسی ہی اختیار کئے ہوئے ہے اور امریکی صدر ٹرمپ کے فیصلے کی حمایت کررہی ہے- امریکی سفارتخانہ، تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا ٹرمپ کے غیرقانونی فیصلے کے ساتھ ہی بحرین کے ایک سرکاری وفد نے مقبوضہ فلسطین کا دورہ کیا اور اسرائیلی حکام سے ملاقات و گفتگو کی-
دوسرا موضوع یہ ہے کہ آل خلیفہ حکومت نے بحرین میں عوامی احتجاجی مطاہروں کی سرکوبی میں بھی اسرائیلی فوجیوں کو استعمال کیا اور اسرائیلی فوجی عوامی مظاہروں کی سرکوبی کے لئے بحرینی سیکورٹی اہلکاروں کو ٹریننگ دے رہے ہیں-
دوسرے لفظوں میں آل خلیفہ اور صیہونی حکومت کے درمیان سیکورٹی رابطہ ہے اور یہ رابطہ اس حقیقت کا عکاس ہے کہ منامہ و تل ابیب کے تعلقات معمول کے تعلقات سے آگے بڑھ چکے ہیں- آل خلیفہ حکومت کی بعض پالیسیاں جیسے شہریوں کی شہریت کو سلب کرنا اور دوسرے ملکوں کے شہریوں کو شہریت دینا وہی روش ہے جو اسرائیل ، فلسطینی شہریوں کو ان کے گھروں اور شہروں سے باہر نکال کران کی جگہ صیہونیوں کو بسانے کے سلسلے میں اختیار کئے ہوئے ہے-
آل خلیفہ کی ان پالیسیوں پر بحرین کے اندرسیاسی جماعتیں حکومت کو شدید تنقیدوں کا نشانہ بنا رہی ہیں اس سلسلے میں بحرین کے الوفا اسلامی گروہ نے بحرینی وزیرخارجہ کے بیانات کی مذمت کرتے ہوئے ان بیانات کو سیاسی بےحیائی اور اسرائیل کی نوکری سے تعبیر کیاہے-
آخری نکتہ یہ ہے کہ آل خلیفہ ایسے عالم میں شام کے خلاف اسرائیلی حملے کا دفاع کررہی ہے کہ شام ایک عرب ملک ہے اور اس کی سب سے پہلی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اسرائیلی حکومت کے وزیرمواصلات ایوب کارا نے بحرین کے وزیرخارجہ کے بیانات کو منامہ کی جانب سے تل ابیب کی تاریخی حمایت قرار دیا ہے- درحقیقت خالد بن احمد آل خلیفہ کے بیانات یوم نکبت کے موقع پر اسرائیل کوبحرینی حکومت کا ایک تحفہ ہے-