شام کے خلاف یورپی یونین کی پابندیوں کی مدت میں توسیع
یورپی یونین نے شام کے خلاف پابندیوں کی مدت میں مزید ایک سال کا اضافہ کر دیا-
یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے پیر کو بریسلز میں اپنے اجلاس میں ایک اعلامیہ جاری کرکے شامی حکام پر عائد یورپی یونین کی پابندیاں مزید ایک سال یعنی جون دوہزار انیس تک کے لئے بڑھا دی ہیں- اس اعلامیے میں حکومت شام کی جانب سے مبینہ طور پر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کو بہانہ بنایا گیا ہے-
یورپی یونین کے بیانیے میں ان چند شامی کمپنیوں کے ناموں کا بھی ذکر ہے کہ جو اس ملک کی قانونی حکومت کے ساتھ تعاون کررہی ہیں - یورپ میں ان کمپنیوں کے اثاثوں کو بھی اسی الزام کے تحت منجمد کردیا گیا ہے جن شامی کمپنیوں کے اثاثوں کو منجمد کیا گیا ہے مجموعی طور پر ان کی تعداد سڑسٹھ ہے-
دہشتگرد گروہ اور ان کے حامی مغربی ممالک ، حکومت شام پر الزام لگاتے ہیں کہ اس نے دہشتگردوں کے خلاف جنگ میں کیمیاوی ہتھیار استعمال کئے ہیں جبکہ حکومت شام نے دہشتگردوں کے خلاف جنگ میں ہمیشہ ہی کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے الزام کو مسترد کیا ہے- اس کے باوجود یہ مسئلہ شام پر مغربی حکومتوں کی یلغار اور دباؤ کا بہانہ بن گیا ہے اور امریکہ ، فرانس اور برطانیہ نے اپریل دوہزاراٹھارہ میں اسی بہانے سے شام کو میزائلی حملوں کا نشانہ بنایا ہے- امریکی ماہر تڈگیلن کارپنٹر کا کہنا ہے کہ شامی حکومت کے مراکز پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے میزائلی اور فضائی حملے مختلف وجوہات کی بنا پر قابل مذمت ہیں- ان تینوں ملکوں کا حملہ ایک خودمختارملک کےاقتداراعلی کے خلاف کھلی جارحیت تھا خاص طور سے ایسی حالت میں کہ جب طے یہ پایا تھا کہ تحقیقاتی کمیٹی، دوما میں کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کی تحقیقات کرے گی اوردمشق نے اس کے اسباب و وسائل بھی فراہم کردیئے تھے-
امریکہ منجملہ مغربی ممالک کہ جنھوں نے شام کی قانونی حکومت کا تختہ پلٹنے کی امید میں بھاری سرمایہ کاری کی تھی اور اب اپنی تمام امیدوں پر پانی پھرتا دیکھ رہے ہیں اور ہربہانے سے دمشق حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش کررہے ہیں اس طرح بحران شام کے سلسلے میں یورپ کے موقف میں تبدیلیوں کے بارے میں جو کچھ امید پیدا ہوئی تھی اب یورپ کی جانب سے شام کے خلاف پابندیوں کی مدت میں توسیع سے پتہ چلتا ہے کہ اس یونین کے اعلی حکام بدستور شام کی قانونی حکومت پردباؤ کے خواہاں ہیں- شام کے خلاف پابندیاں جاری رہنے کا مطلب یہ ہے کہ یورپی یونین، بحران شام کے سیاسی راہ حل کے سلسلے میں غیرتعمیری اور منفی نظریہ رکھتی ہے ایک ایسا بحران کہ جو دوہزارگیارہ سے امریکہ اور بعض مغربی و عرب ممالک کی ہمہ گیر حمایت کی بنا پر شروع ہوا ہے- شام کی قانونی حکومت کی سرنگونی کے لئے عرب اور مغربی اتحاد اپنے مجموعی ہدف کے حصول کے لئے سن دوہزارگیارہ سے یورپی یونین کے دورکن کی حیثیت سے فرانس و برطانیہ نے طرح طرح کے مسلح دہشتگرد گروہوں کی ہمہ گیر امداد پر اپنی توجہ مرکوز کردی ہیں تاکہ بزعم خود ان گروہوں کے ذریعے اپنی خواہش یعنی بشاراسد کی سربراہی میں شام کی قانونی حکومت کا تختہ الٹ سکیں- اس اقدام کا مجموعی مقصد درحقیقت علاقے میں استقامت کے اصلی محور کو نقصان پہنچانا تھا تاکہ شامی نظام کا تختہ الٹ کرعلاقے میں استقامت کے محور کو بکھیر دیں- اس کے باوجود یہ خانہ جنگی شروع کرنے کا انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہے- سوئیڈن کے سیاسی امور کے ماہر آرون لونڈ کا کہنا ہے کہ بشاراسد نے اسٹریٹیجک لحاظ سے ان دشمنوں کو شکست دے دی ہے جو انھیں ہٹانا چاہتے تھے-
اس وقت دہشتگرد گروہوں کی پوزیشن پوری طرح کمزور ہوگئی ہے اور شامی حکومت چاہتی ہے کہ اپنے اتحادیوں یعنی روس، ایران اور حزب اللہ لبنان کے ساتھ مل کر شام کے دیگر علاقوں میں بھی اپنی کامیابیوں کومکمل کرے- مسلمہ امر ہے کہ یورپی یونین کی پابندیاں بھی اس سلسلے میں دمشق کے عزم کو کمزور نہیں کرسکتیں-