واشنگٹن- کابل سیکورٹی معاہدہ منسوخ کرنے پر افغان پارلمینٹ کی تاکید
افغانستان کے ممبران پارلیمنٹ نے امریکہ کے اپنے وعدوں پر قائم نہ رہنے کے سبب افغانستان کے ساتھ سیکورٹی معاہدہ منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے-
افغانستان کے صوبہ بامیان کے نمائندے محمد قیس وکیلی نے کہا ہے کہ امریکہ نہ صرف افغانستان کے ساتھ اپنے سیکورٹی معاہدے میں کئے گئے وعدوں کا پابند نہیں ہے بلکہ دہشت گردوں کی حمایت کرکے اس ملک میں بدامنی کو ہوا دے رہا ہے- صوبہ فاریاب کے نمائندے گل محمد رسولی نے کہا ہے کہ کابل اور واشنگٹن کے درمیان سیکورٹی معاہدہ پر دستخط کے باوجود افغانستان میں دن بہ دن امن و امان کی صورتحال بدتر ہوتی جا رہی ہے- افغان ممبران پارلیمنٹ نے اعلان کیا ہے کہ کابل حکومت نے اس معاہدے پر دستخط کرکے امریکہ سے دھوکہ کھایا ہے کیوں کہ وائٹ ہاؤس چاہتا ہے کہ افغانستان میں جنگ برسوں تک جاری رہے- اگرچہ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کے دور میں ہی افغانستان اور امریکہ کے درمیان سیکورٹی معاہدہ تنظیم پایا گیا تھا لیکن انہوں نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کیا تھا۔ لیکن افغانستان کے موجودہ صدر محمد اشرف غنی کی حکومت نے 2014 میں اندرون ملک مخالفتوں کے باوجود فخریہ انداز میں اس پر دستخط کردیئے۔
اس معاہدے پر دستخط ہوئے تین سال سے زائد کا عرصہ گذرجانے کے باوجود اس وقت افغان حکام پر بھی یہ بات مکمل طور پر واضح ہوگئی ہے کہ امریکہ ، کابل کو فریب دے کر صرف اور صرف افغانستان پر قبضے کو سرکاری حیثیت دینے، اس ملک میں دس فوجی اڈے حاصل کرنے اور اپنے فوجیوں کے لئے قانونی استثنی حاصل کرنے کے درپے ہے۔ ایک نئے اور علیحدہ مشن کی وضاحت جیسے افغانستان میں امریکی اور نیٹو فورسیز کے ذریعے افغان فوجیوں کی ٹریننگ، سے پتہ چلتا ہے کہ واشنگٹن افغان حکومت کے ساتھ سیکورٹی معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتاہے۔ اس کے ساتھ ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافے پر رضامندی ظآہر کرتے ہوئے ان فوجیوں کو آپریشن کرنے کی اجازت دے دی ہے چنانچہ ان فوجیوں نے بہت سے عام شہریوں کو قتل کردیا ہے-
امریکی وزارت خارجہ کے سابق عہدیدار اور میرین کالج کے استاد جی کال وسٹن g.cal veston کہتے ہیں کہ افغانستان میں امریکی جنگ کی بھینٹ چڑھنے والے بہت سے افراد عام شہری ہیں کہ جنہیں امریکی بموں سے ہلاک کیا گیا ہے۔ بے شمار افغان شہری، جو امریکہ کی جنگ میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ایسے بے گناہ افراد ہیں کہ جن پر دہشت گرد کا لیبل لگا کر ہلاک کیا گیا ہے۔
افغان حکومت کے ساتھ ہونے والے سیکورٹی معاہدے سے امریکہ کی بے توجہی سے یہ واضح کردیتی ہے کہ واشنگٹن اپنے کسی بھی بین الاقوامی وعدے کا پابند نہیں ہے اور وہ عام شہریوں کو صرف اپنے مذموم اہداف کی بھینٹ چڑھانے اور عسکریت پسندی کی توسیع کے درپے ہے- امریکہ کہ جس نے 2001 میں افغانستان پر حملہ کرکے اس پر قبضہ جمالیا تھا، اس وقت وہ داعش دہشت گردوں کو مشرق وسطی سے افغانستان منتقل کرکے اس ملک میں بدامنی میں شدت لانے اور دہشت گردی کو مرکزی ایشیاء اور قفقاز منتقل کرکے اسے دہشت گردی کے ایک اڈے میں تبدیل کرنے میں کوشاں ہے-
بہرحال یہ پہلی بار نہیں ہے کہ افغانستان کے ممبران پارلیمنٹ ، امریکہ کے ساتھ ہونے والے سیکورٹی معاہدے کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں- اگرچہ امریکہ اس مسئلے کو اہمیت دے رہا ہے لیکن افغانستان کی تبدیلیوں کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ دو استکباری طاقتیں مختلف زمانوں میں اس ملک کے عوام کے ہاتھوں شکست کھا چکی ہیں اور اگر افغانستان کے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو ایسے حالات پیش آئیں گے کہ جسے امریکہ کے سیاسی حلقے، افغانستان میں امریکی فوجیوں کی قبرستان بننے سے تعبیر کر رہے ہیں-