ٹرمپ و پوتین کی ملاقات پر کریمہ کے بادل
وائٹ ہاؤس نے ایک بار پھر اپنے گزشتہ موقف کو دہراتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکہ جزیرہ نما کریمہ کے الحاق کو تسلیم نہیں کرتا-
وائٹ ہاؤس کے ترجمان ہوگن گیڈلی نے اس سلسلے میں کہا کہ ، وائٹ ہاؤس، روس کے جزیرہ نما کریمہ کے الحاق کی کوشش کو ہرگز تسلیم نہیں کرے گا-
ٹرمپ نے انتیس جون کو اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ کیا امریکہ ، کریمہ کو روس کا ایک حصہ سمجھتا ہے یا نہیں کہا کہ : دیکھنا پڑے گا- بعض تجزیہ نگاروں نے ٹرمپ کے اس موقف کے بعد کہا کہ ممکن ہے وہ کریمہ کو روس کا حصہ تسلیم کرلے-اس کے باوجود کریمہ کی صورت حال کے بارے میں امریکہ کا دوبارہ اپنے سرکاری موقف کا اعلان کرنا اس سلسلے میں واشنگٹن کے سابقہ موقف پر تاکید ہے-
یہ حالات ، روس اور امریکہ کے سربراہوں کی آئندہ ملاقات کے پیش نظر واشنگٹن اور ماسکو کے تعلقات میں بہتری کے بارے میں مایوس کن ہے- پروگرام کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ اورروس کے صدر پوتین فنلینڈ کے دارالحکومت ہلسینکی میں سولہ جولائی کو ملاقات کرنے والے ہیں- ماسکو کا خیال ہے کہ کریمہ کا مسئلہ ختم ہوچکا ہے اور اس کے بارے میں کسی طرح کے مذاکرات نہیں ہوں گے- روسی صدر پوتین نے اس سوال کے جواب میں کہ روس، کن شرائط کے تحت جزیرہ نما کریمہ کو یوکرین کو واپس کرے گا کہا کہ کوئی شرط ہی نہیں ہے- یعنی روسی صدر کہنا یہ چاہتے ہیں کہ وہ کسی بھی صورت میں کریمہ سے اپنا کنٹرول ختم نہیں کریں گے-
روسی پہلے یہ سمجھتے تھے کہ ٹرمپ کے برسراقتدارآنے کے بعد واشنگٹن اور ماسکو کے حالات بہتر ہوجائیں گے تاہم اس وقت حالات پوری طرح اس کے برعکس آگے بڑھ رہے ہیں- شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ ٹرمپ حکومت ماسکو کے خلاف دباؤ میں شدت میں کانگریس کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے- روس سے جزیرہ نمائے کوریا کے الحاق جیسے مسائل، مشرقی یوکرین کے بحران میں ماسکو کی مداخلت اور سب سے بڑھ کر امریکہ کے صدارتی انتخابات میں سائبرنفوذ کے ذریعے ماسکو کا اثرو نفوذ دوہزارچودہ سے اب تک روس کے خلاف امریکی پابندیوں کا بہانہ رہا ہے-
دوہزارسولہ کے امریکہ کے صدارتی انتخابات کے عمل میں ماسکو کے کردار کے دعوے کے بہانے کاتسا قانون کے تناظر میں روس کے خلاف امریکہ کی نئی اور یکطرفہ پابندیاں نافد کی گئیں اور ماسکو کے خلاف نئی پابندیوں کا بھی اسی تناظر میں جائزہ لینا چاہئے- روس کے سیاسی تجزیہ نگار الکسی موخین کا کہنا ہے کہ امریکہ میں روس کے خلاف پابندیوں کا منصوبہ بنانے والوں نے ایک بڑی غلطی کی ہے-
روس اور مغرب کے درمیان حالیہ کشیدگی نے واشنگٹن کا روس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا عزم مضبوط کیا ہے تاہم ٹرمپ جو کہ ایک تاجر پیشہ سیاستداں ہونے کی بنا پراس وقت اپنے شرکاء کے ساتھ بھی کھلے اختلافات رکھتے ہیں اور مغربی دنیا میں بھی تنہا ہوگئے ہیں اس کوشش میں ہیں کہ اپنے لئے ایک نیا دریچہ کھولیں اوراسی بنا پروہ پوتین کے ساتھ براہ راست مذاکرات کر کے اختلافات کو حل کرنا چاہتے ہیں اس کے باوجود فریقین کے درمیان اختلافات اتنے زیادہ ہیں کہ کچھ اختلافات کے حل ہونے کا بھی بہت کم امکان ہے- ماسکو کے ساتھ واشنگٹن کے اختلافات کی فہرست میں سیاسی، سیکورٹی ، فوجی، تجارتی اور اقتصادی اختلافات تک ہی محدود نہیں بلکہ انرجی کے میدان میں بھی امریکہ اور روس کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں لہذا ٹرمپ اور پوتین کے آئندہ مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے کی زیادہ امید نہیں پائی جاتی-