ادلب کی آزادی کا آپریشن روکنے کے لئے انقرہ کی کوشش
ترکی کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ وہ شام کی سرزمین پر دہشت گردوں کی آخری پناہ گاہ ادلب کی آزادی کے لئے فوجی آپریشن کے مخالف ہیں-
ترک وزیر خارجہ مولود چاووش اوغلو نے شام کی حکومت پر، صوبہ ادلب میں دہشت گردوں کے بہانے عام شہریوں کو نشانہ بنائے جانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت انقرہ کا مقصد ادلب پر حملے کو روکنا ہے- ترکی کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ انقرہ ادلب کی کاروائی روکنے کے لئے ایران اور روس کے ساتھ تبادلۂ خیال کر رہا ہے۔
صوبہ ادلب شام کے شمال مغرب میں واقع ہے اور ترکی کی سرحد سے اس کی سرحد ملتی ہے۔ اس صوبے میں اس وقت تیس لاکھ افراد زندگی گذار رہے ہیں اسی سبب سے یہ صوبہ انقرہ کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے- واضح سی بات ہے کہ ہمہ جانبہ فوجی آپریشن اور لڑائی کے نتیجے میں ترکی کے لئے سخت حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ کیوں کہ لڑائی شروع ہونے کی صورت میں شام سے ملحقہ ترکی کی سرحد پر دہشت گردانہ خطروں میں اضافہ ہوسکتا ہے اور انسانی بحران پیدا ہونے کے باعث ترکی کی طرف لوگوں کے فرار کرنے کا مسئلہ پیش آسکتا ہے۔ اس وقت تیس لاکھ سے زائد شامی پناہ گزیں، ترکی میں رہائش پذیر ہیں۔ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ تیس ہزار سے زائد مسلح گروہ، صوبہ ادلب میں موجود ہیں-
یہ ایسی حالت میں ہے کہ صوبہ ادلب کو دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد کرانے کی کاروائی، شام میں جاری سات سالہ جنگ کے خاتمے پر منتج ہوسکتی ہے-
اس وقت صوبہ ادلب میں تیس لاکھ سے زائد عام شہریوں کو ایک طرح سے دہشت گردوں نے یرغمال بنا رکھا ہے اور ان کو شدید غذائی قلت کے باعث، بھوک مری کا سامنا ہے-
واضح رہے کہ دو روز قبل تہران میں ہونے والے سہ فریقی اجلاس میں ایران ، روس اور ترکی کے سربراہان مملکت نے صوبہ ادلب کو دہشت گردوں کے قبضے سے واپس لینے اور اس صوبے میں امن و امان قائم کرنے پر اتفاق کیا تھا- جبکہ ترکی، علاقے کے باشندوں کو دہشت گردوں سے لاحق خطرات پر توجہ کئے بغیر ، اس علاقے کو آزاد کرانے کے لئے دمشق حکومت سے آپریشن انجام نہ دینے کا مطالبہ کر رہا ہے-
شام کی حکومت اور فوج نے ملک میں دہشت گردوں کے آخری ٹھکانے ادلب میں ایک بڑی فوجی کارروائی کے آغاز کا اعلان کیا ہے تاکہ ملک سے دہشت گردوں کے صفائے کا عمل مکمل کیا جاسکے۔ اور اسی سلسلے میں شامی فوج خود کو آمادہ کر رہی ہے- فوعہ اور کفریہ سے عام شہریوں کے انخلا کے بعد سے ترکی کی سرحد کے قریب واقع شام کا صوبہ ادلب، اس وقت مکمل طور پر دہشت گردوں کے قبضے میں ہے۔ شام کے صدر بشار اسد پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ ترکی کی سرحد کے قریب واقع اس صوبے کو دہشت گردوں سے پاک کرنا ان کی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ شامی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے ادلب میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کلین اپ کے لیے لازمی منصوبہ بندی کر لی ہے جس میں عام شہریوں کی حفاظت کو خاص طور سے مد نظر رکھا گیا ہے۔
دہشت گردوں کے قبضے سے ادلب کو آزاد کرانے کے شامی فوج کے اقدامات کے ساتھ ہی، مغربی حلقہ، امریکی قیادت میں اس کاروائی کو روکے جانے کے لئے شور وغل مچا رہا ہے۔ اسی سلسلے میں امریکی وزارت خارجہ کے خصوصی نمائندے جیم جفری (Jim Jeffrey) نے یہ بے بنیاد دعوی کیا ہے کہ ایسے قرائن و شواہد پائے جاتےہیں کہ جن سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ شامی حکومت اس بار خود کو ادلب میں کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کے لئے تیار کر رہی ہے-
ترکی کے وزیر خارجہ نے ادلب میں آپریشن شروع نہ کئے جانے کے مقصد سے، ایران اور روس کے ساتھ تبادلۂ خیال کا دعوی ایسی حالت میں کیا ہے کہ جب ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے حالیہ تہران اجلاس میں ، دہشت گرد گروہوں داعش اور جبھۃ النصرہ اور القاعدہ یا داعش سے وابستہ دیگر تمام افراد ، گروہوں اور تنظیموں کو نابود کرنے کے لئے باہمی تعاون پر تاکید کی ہے-
ادلب میں رونما ہونے والے مجموعی حالات کے پیش نظر ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ صوبہ ادلب کا مستقبل اور اس میں بسنے والے تیس لاکھ نہتے شہریوں کی تقدیر کا فیصلہ، تہران سمجھوتے کی شقوں پر بھرپور طور پر عملدرآمد ہونے اور ادلب کی موجودہ ابتر صورتحال سے، سمجھوتے کے کسی فریق ملک کی بے توجہی نہ برتنے پر منحصر ہے- امید کی جاتی ہے کہ ترکی سے ملحقہ شام کے سرحدی علاقوں کے تعلق سے، انقرہ آئندہ دنوں میں عملی اقدامات انجام دینے کے ذریعے تہران سمجھوتے کی شقوں کی پابندی کرے گا-