سلامتی کونسل ، ٹرمپ کے رویے کے خلاف
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ، اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی اور اقتدار میں آنے کے بعد بھی ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان ایٹمی سمجھوتے کی مسلسل مخالفت اور اسے بدترین سمجھوتہ قرار دیتے رہے ہیں اور آخرکار انھوں نے آٹھ مئی دوہزار اٹھارہ کو ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے نکلنے کا اعلان کر تے ہوئے اگست و اور نومبر دوہزار اٹھارہ سے ایران کے خلاف ایٹمی پابندیاں نافذ کر دیا-
ٹرمپ نے بدھ کو امریکہ کی صدارت میں سلامتی کونسل کے اجلاس میں ایران اور ایٹمی سمجھوتے کے بارے میں ایک بار پھر اپنے سابقہ الزامات کو دہرایا- ٹرمپ نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں ایران پر تشدد اور بدامنی پھیلانے، دہشتگردی کی حمایت کرنے اور ایٹمی ہتھیار بنانے کے لئے خفیہ پروگرام کو آگے بڑھانے کا بھی الزام لگایا- انھوں نے دعوی کیا کہ ایٹمی سمجھوتے سے ان کے باہر نکلنے کی وجہ یہ ہے کہ ایران نے ایٹمی سمجھوتے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی علاقائی پالیسیوں کے لئے لازمی مالی ذرائع حاصل کرلئے ہیں -
ٹرمپ نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کرتے ہوئے کہ چار نومبر سے ایران کے ایٹمی سمجھوتے سے متعلق تمام پابندیوں پر عمل درآمد شروع ہوجائے گا کہا کہ اس کے بعد امریکہ ہمیشہ سے زیادہ سخت اور مزید پابندیاں عائد کرے گا تاکہ ایران کے رویے کا مقابلہ کرے اور جو بھی ان پابندیوں میں ساتھ نہیں دے گا اسے نہایت سخت انجام بھگتنا پڑے گا- ٹرمپ نے سلامتی کونسل کے تمام اراکین سے مطالبہ کیا کہ وہ امریکہ کی حمایت کریں اور اس بات کی ضمانت دیں کہ ان کے بقول ایران ہرگز ایٹم بم حاصل نہ کرسکے - ٹرمپ کی توقع کے برخلاف سلامتی کونسل کے مستقل و غیر مستقل اراکین نے ایٹمی سمجھوتے کے سلسلے میں امریکی موقف کے خلاف موقف اختیار کیا اور ان سب نے کم و بیش ایٹمی سمجھوتے کی کہ جو عالمی امن و سلامتی کے لئے ہے، حفاظت کی خواہش ظاہر کی جو امریکہ کے لئے ایک بڑی ناکامی شمار ہوتی ہے سلامتی کونسل کے اجلاس میں ٹرمپ کی موجودگی میں اس کونسل کے رکن ممالک نے کہ جن میں بعض یورپ کی مانند امریکہ کے اتحادی شمار ہوتے ہیں اور بعض چین و روس کی مانند اس کے حریف شمار ہوتے ہیں سب نے ایران کے خلاف ٹرمپ کے دعووں کے برخلاف موقف اختیار کیا اور ان کے مطالبات کے برخلاف ایک کامیاب بین الاقوامی معاہدے کے مظہر کی حیثیت سے ایٹمی سمجھوتے کے تحفظ کی خواہش ظاہر کی -
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے چار مستقل اراکین اور دیگر اکثر اراکین نے ایٹمی سمجھوتے کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے ٹرمپ کے مطالبات کو مسترد کردیا - فرانس کے صدر امانوئل میکرون نے ایران کی جانب سے ایٹمی سمجھوتے کی پابندی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فرانس ، ایٹمی سمجھوتے کے سلسلے میں ٹرمپ کے رویے کا مخالف ہے اور اختلافی موضوعات کے حل کے لئے کوئی بھی گفتگو اس سمجھوتے کے ختم ہونے کے بعد انجام پانا چاہئے- حتی برطانیہ نے کہ جو امریکہ کا اسٹریٹیجک اتحادی ہے، ٹرمپ کے خلاف موقف اختیار کیا ہے - برطانوی وزیراعظم تھریسا مئے نے ایران کی جانب سے ایٹمی سمجھوتے کی مکمل پابندی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان بین الاقوامی دائروں کو کہ جو ہمیں سیکورٹی فراہم کرتے ہیں، الگ نہیں رکھ سکتے تاہم گروپ چارجمع ایک کے مشرقی گروہ یعنی چین اور روس نے بھی ایٹمی سمجھوتے کی مکمل حمایت کا موقف اختیار کیا اور ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کے دباؤ کی مذمت کی-
روس کے وزیرخارجہ سرگئی لاؤروف نے ایران کی جانب سے ایٹمی سمجھوتے کی بھرپور حمایت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ روس ، ایٹمی سمجھوتے کی حفاظت اور اس پرعمل درآمد کا خواہاں ہے اور اس کے ہاتھ سے نکلنے کو عالمی امن کے لئے ایک بڑا خطرہ سمجھتا ہے- چین کے وزیرخارجہ وانگ یی نے بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے ایٹمی سمجھوتے کی تائید و تصدیق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے امریکہ کی جانب سے ایران کے ساتھ تجارتی و اقتصادی تعلقات ختم کرنے کا دباؤ نہ ڈالے جانے کا مطالبہ کیا-
درحقیقت سلامتی کونسل کا اجلاس امریکہ کے الگ تھلگ پڑجانے اور اس کی یکطرفہ پالیسیوں کی ناکامی کا ایک ثبوت ہے- اس اجلاس میں ٹرمپ نے سلامتی کونسل کے مستقل و غیرمستقل ممالک کے سربراہوں اور اعلی حکام کی زبانوں سے جو سنا اس کی انھیں توقع نہیں تھی اور شاید یہی وجہ تھی کہ وہ اس اجلاس کے ختم ہونے سے پہلے ہی روانہ ہوگئے جس کا وہ بارہا بڑے ذوق و شوق سے ذکر کیا کیا کرتے تھے- اوراجلاس کی سربراہی اقوام متحدہ میں امریکی نمائندہ نیکی ہیلی کے حوالے کردی- درحقیقت ٹرمپ کے اندر دوسروں کی زبان سے اپنے خلاف موقف و نظریات برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہے اور یہی چیز ان کی استکباری و سامراجی فطرت و عادت کا ثبوت ہے-