Oct ۰۶, ۲۰۱۸ ۱۶:۵۵ Asia/Tehran
  • امریکہ کے ذریعے دہشت گردی کی حمایت کے سناریو کی تکرار

امریکی حکومت نے فریب کاری سے کام لیتے ہوئے " دہشت گردی سے مقابلے کی قومی اسٹریٹیجی" سے موسوم دستاویز شائع کرکے ایک بار پھر اسلامی جمہوریہ ایران کو دہشت گردی کا حامی بتایا ہے-

اس دستاویز میں اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ امریکہ کو انتہاپسند اسلامی دہشت گرد گروہوں کا سامنا ہے، دعوی کیا گیا ہے کہ ہمیں بدستور ایران کے خطروں کا سامنا ہے کہ جو سرکاری دہشت گردی کا اہم ترین حامی ہے- 

اس دستاویز میں حزب اللہ لبنان کو ایران کے حامی ایک دہشت گرد گروہ کے طور پر ذکر کیا گیا ہے اورکہا گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اس گروہ اور بعض دیگر گروہوں کو، عراق، لبنان، فلسطین، شام  اور یمن میں اثرو رسوخ پیدا کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہے-

یہ اسٹریٹیجی، کہ جسے امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے دہشت گردی سے مقابلے کی جامع اور کامل امریکی اسٹریٹیجی سے توصیف کیا ہے، ایسی حالت میں منظرعام پر آئی ہے کہ اس سے قبل امریکی حکام اور اس ملک کے میڈیا ذرائع ، القاعدہ، داعش، جبھۃ النصرہ اور دہشت گروہوں کو وجود میں لانے اور ان کو طاقتور بنانے میں امریکی کردار کا اعتراف کرچکے ہیں- 

امریکی انٹلی جنس کے بعض ماہرین نے دسمبر 2017 میں، ٹرمپ کے نام ایک مراسلے میں ان کی حکومت کے توسط سے ایران کو دہشت گردی کا اصلی حامی قرار دیئے جانے پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت دہشت گردی کا اصلی حامی سعودی عرب ہے نہ کہ ایران، اور امریکی حکومت خود، ایران کے خلاف دہشت گرد گروہوں کی حمایت کا ریکارڈ رکھتی ہے- 

مغربی ایشیا کے مسائل کے ماہر اور تجزیہ کار رضا مقدسی، اسپوٹنیک کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ان امریکی الزامات کے پیچھے کیا وجوہات پوشیدہ ہیں کہتے ہیں کہ ایران پر دہشت گردی کا الزام عائد کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ امریکہ ایٹمی معاہدے کے تعلق سے اپنی بدعہدیوں اور خلاف ورزیوں کی توجیہ کر رہا ہے۔ اور امریکی بہرحال اپنے برے اور ناپسندیدہ رویوں کی توجیہ کرنے پر مجبور ہیں اور اس کے لئے ان کے پاس ، دہشت گردی کی حمایت کے بہانے سے زیادہ اور کوئی بہانہ کیا ہوسکتا ہے؟ 

یہ ایسی حالت میں ہے کہ ایران میں دہشت گردانہ حملوں منجملہ شہر اہواز کے حالیہ حملوں میں امریکہ اور اس کے علاقائی ایجنٹوں کا ہاتھ ہونا واضح ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں نے داعش اور دہشت گرد گروہوں سے مقابلے کے لئے نہ صرف عملی طور پر کوئی اقدام نہیں کیا ہے بلکہ براہ راست اور بالواسطہ طور پر دہشت گردوں کو فوجی ہتھیار بھی فراہم کئے ہیں- 

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے جمعرات کو استنبول میں ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ نے ہتھیاروں سے بھرے انیس ہزار ٹرک، شام میں تعینات دہشت گرد گروہوں کو ترسیل کئےہیں۔

وائٹ ہاؤس، درحقیقت علاقے میں اپنی فوجی مداخلتوں کی توجیہ کرنے ، ایران کے خلاف دشمنی میں شدت لانے، اور علاقے میں اپنے اہداف کے حصول کے درپے ہے۔ دہشت گردی سے مقابلے کی اسٹریٹیجک دستاویز، اسی بنیاد پر تنظیم پائی ہے-

درحقیقت جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے جمعرات کو تہران میں واقع آزادی اسٹیڈیم میں رضاکار فورس بسیج کے عظیم اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ استکبار کا مقصد، ایران کے اسلامی اقتدار کو نقصان پہنچانا ہے۔ آپ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ دشمن نے اسلام سے بھرپور شکست کھائی ہے اور وہ اسلامی انقلاب سے خوار کھائے بیٹھا ہے، فرمایا کہ دشمن ایک ایسی بڑی اسلامی طاقت کے وجود سے جو علاقے میں اس کے اغراض و مقاصد کے حصول کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنی ہوئی ہے، ہمیشہ خوف زدہ رہتا ہے اسی لئے ایران کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دشمن، ایران اور خود اپنے اور علاقے کے بارے میں غلط اندازوں اور تخمینوں کی بنیاد پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ وہ بہت مستحکم موقف و پوزیشن میں ہے حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔آپ نے فرمایا " ہارڈ ویئر یعنی وسائل کے لحاظ سے امریکیوں کے طاقتور ہونے کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ وہ مضبوط پوزیشن میں نہیں ہیں، اس لئے کہ عالمی مقابلوں میں طاقت اور توانائی کا تعین اور فیصلہ کرنے والا اصلی عامل، سافٹ ویئر یعنی منطق، استدلال اور نئی بات ہے اور امریکا ان میں بہت کمزور ہے اور منطق اور استدلال کے فقدان کی وجہ سے ہی منھ زوری سے کام لیتا ہے۔"           

ٹیگس