خاشقجی قتل کے مسئلے میں محمد بن سلمان کو بے گناہ ثابت کرنے کی ٹرمپ کی کوشش
ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں مخالف صحافی جمال خاشقجی کا قتل، سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان کے لئے ایک بڑی مشکل میں تبدیل ہوگیا ہے-
خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں داخل ہوئے تھے لیکن اس کے بعد وہاں سے وہ ہرگز خارج نہیں ہوئے۔ خاشقجی کے بے رحمانہ قتل کے خلاف عالمی سطح پر ردعمل اور مذمتوں کا سلسلہ جاری ہے اور یورپی اور امریکی حکام نے بھی اس مسئلے کو ہدف تنقید بنایا ہے- سعودی حکومت نے اٹھارہ روز انکار کے بعد، عالمی دباؤ کے بعد ایک بیان جاری کرکے خاشقجی کے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اس قتل کیس کے تعلق سے، اٹھارہ افراد میں سے پندرہ افراد کو جو اس قتل پر مامور کئے گئے تھے، ریاض سے گرفتار کرلیا گیا ہے۔
سعودی حکومت کے اہم اتحادی کی حیثیت سے امریکہ کے اندر بھی اس بہیمانہ قتل پر بہت زیادہ ردعمل دیکھنے میں آیا ہے اور سعودی حکومت کو تنبیہ کرنے کی غرض سے خاص طور پر اراکین کانگریس کی طرف سے ٹھوس مطالبہ کیا جا رہا ہے- اس دباؤ کے نتیجے میں امریکی وزارت خزانہ نے خاشقجی قتل میں ملوث سترہ افراد کے خلاف پابندی لگائی ہے کہ جو بظاہر اعتراضات اور احتجاجات میں کمی لانے کےلئے ایک نمائشی اقدام ہے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ وائٹ ہاؤس اس کوشش میں ہے کہ خاشقجی قتل میں محمد بن سلمان کے بنیادی کردار کا سرے سے انکار کردے تاکہ اس طرح سے بن سلمان کی خوشامد کے ساتھ ہی واشنگٹن اور ریاض کے وسیع تعلقات جاری رکھنے کے لئے ضروری بہانہ حاصل کرسکے-
اسی سلسلے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز اس بات کا اعلان کرتے ہوئے کہ خاشقجی قتل سے متعلق سی آئی اے کی تحقیقات کے بارے میں انہیں ضروری اطلاعات فراہم نہیں ہوئی ہیں، اس بات کا دعوی کیا کہ ان سے کہا گیا ہے کہ خاشقجی قتل میں سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کا کوئی کردار نہیں ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ سی آئی اپنی تحقیقات میں اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ محمد بن سلمان نے بذات خود خاشقجی کے قتل کا حکم جاری کیا تھا۔ اس کے مقابلے میں امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ھدر نائورٹ نے اس بات کا دعوی کرتے ہوئے کہ امریکہ نے پہلے ہی خاشقجی قتل میں ملوث افراد کے خلاف ٹھوس اقدمات کئے ہیں منجملہ یہ کہ ان کو ویزا نہ دینے اور ان کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا اقدام کیا ہے کہا کہ یہ کام امریکہ اور سعودی عرب کے اہم اسٹریٹیجک تعلقات کی حفاظت کے ساتھ انجام پائے گا-
ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کے اس موقف کی اہم وجہ، سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں پائی جانے والی بہت زیادہ حساسیت اور اہمیت ہے کہ جس کے سبب ٹرمپ نے یہ موقف اپنایا ہے۔ ٹرمپ نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد اپنا سب سے پہلا بیرون ملک کا دورہ سعودی عرب کا کیا تھا اور اس دورے میں اس نے ایک سو دس ارب ڈالر کی مالیت کے ہتھیاروں کے معاہدے پر سعودیوں کے ساتھ دستخط کئے تھے۔ اس کے علاوہ اس دورے میں اور بھی معاہدے انجام پائے تھے کہ جن کی مالیت چار سو پچاس ارب ڈالر بتائی جاتی ہے جس سے ہزاروں امریکیوں کو ملازمتوں اور روزگار کے مواقع میسر آئیں گے-
فطری طور پر ٹرمپ کہ جن کا نظریہ، حتی خارجہ پالیسی اور سیکورٹی پالیسی میں بھی تجارتی اور سودا بازی پر مبنی ہے کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ ایک سعودی مخالف صحافی کے قتل کے سبب سعودی عرب سے وہ اپنے تعلقات کو خراب کریں۔ ساتھ ہی یہ کہ ٹرمپ نے برسر اقتدار آنے کے وقت سے ہی آشکارا طور پر یہ اعلان کردیا تھا کہ امریکہ کے اتحادی ملکوں کے داخلی مسائل حتی انسانی حقوق کی صورتحال سے ان کو کچھ لینا دینا نہیں ہے- واشنگٹن کا انسانی حقوق کے سلسلے میں یہ وہی دوہرا معیار ہے کہ جسے امریکہ اپنے دشمن یا حریف ملکوں کے بارے میں غیر معمولی حساسیت کے ساتھ انجام دے رہا ہے لیکن سعودی عرب جیسے دوست اور اتحادی ممالک کے تعلق سے اسے نظر انداز کر رہا ہے۔
خاشقجی قتل کیس میں محمد بن سلمان کو بے گناہ ثابت کرنے کی ٹرمپ کی کوششوں کے باوجود ، سعودیوں کی اس جارحیت کے بارے میں امریکی کانگریس کی جانب سے بھی مسلسل دباؤ بڑھ رہا ہے۔ امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے اس بارے میں لکھا ہےکہ امریکہ کو سعودی عرب کے بے رحم ڈکٹیٹر کے ساتھ تعلقات میں مکمل نظر ثانی کرنی چاہئے اور اس کام کو وہ یمن کے خلاف جاری وحشیانہ حملوں کی حمایت بند کرنے سے شروع کرے-