جنگ یمن میں سعودی عرب کی حمایت جاری رہے گی: پنٹاگون کا اعلان
سعودی اتحاد، یمنی عوام کے خلاف مارچ 2015 سے وحشیانہ حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اور امریکہ سعودی عرب کی مسلسل حمایت کر رہا ہے البتہ یہ حمایت، کانگریس اور وائٹ ہاؤس کے درمیان اختلافی مسئلے میں تبدیل ہوگئی ہے-
امریکہ نے جنگ یمن میں سعودی عرب کی سیاسی حمایت کے ساتھ ساتھ اسے اسلحہ، انٹلی جینس اور لاجسٹک سپورٹ بھی فراہم کیا ہے- امریکہ نے جنگ یمن میں سعودی اتحاد کے لڑاکا طیاروں کو فضا میں ایندھن بھی فراہم کیا ہے اور سعودیوں کو مختلف قسم کی انٹلی جنس فراہم کی ہیں- اگرچہ پنٹاگون نے نومبر 2018 میں اعلان کیا تھا کہ اس نے سعودی لڑاکا طیاروں کو ایندھن فراہم کرنا بند کردیا ہے تاہم ابھی بھی امریکہ ، ہتھیاروں کی سپلائی اور فوجی ٹریننگ اور انٹلی جنس فراہم کرنے میں سعودی اتحاد کی مدد کر رہا ہے-
اکتوبر 2018 میں سعودی مخالف معروف صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر عالمی سطح پر کیا جانے والا ردعمل، اور امریکہ میں بھی اس کے تعلق سے وسیع پیمانے پر ردعمل کے ساتھ ساتھ سعودی حکومت کو سزا دیئے جانے کا رائے عامہ کا دباؤ اور مطالبہ اس بات کا باعث بنا کہ یمن کی انسانیت سوز جنگ میں سعودی اتحاد کے لئے امریکی حمایت بند کئے جانے کےمسئلے پر سنجیدگی سے غور کیا جائے-
چنانچہ اس سلسلے میں امریکی ایوان نمائندگان نے تیرہ فروری کو یمن کے خلاف جارح سعودی اتحاد کی جاری جارحیت کے چار سال بعد سعودی اتحاد کی حمایت کا سلسلہ روکنے کا بل منظور کر لیا ۔ امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان میں منظور ہونے والے اس بل کے حق میں دوسو اڑتالیس جبکہ مخالفت میں ایک سو ستتر ووٹ ڈالے گئے-
یہ ایسے میں ہے کہ امریکی ایوان نمائندگان کے اس بل کا سینٹ میں منظور ہونا ضروری ہے-ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ اگر سینٹ اس بل کو منظور کرے گی تو وہ ویٹو کر دیں گے - اب اگر اس بل کی سینیٹ میں بھی منظوری ہوجاتی ہے تو ٹرمپ مجبور ہیں کہ وہ اس پر دستخط کرکے سعودی اتحاد کی حمایت بند کرنے کا حکم جاری کریں اور یا پھر ویٹو کے حق کا استعمال کرکے اسے قبول نہ کریں اور کانگریس کے مقابلے میں ڈٹ جائیں- ٹرمپ کی جانب سے ویٹو کی صورت میں ، اگر ایوان نمائندگان کے ممبران اس بل پر عمل درآمد کا عزم رکھتے ہوں گے تو ایوان نمائندگان اور سینٹ کے اراکین کا دوتہائی ووٹ اس ملک کے صدر کے ویٹو کو غیر موثر کردے گا، اور اس وقت امریکی صدر اسے قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں گے-
اس بل کی منظوری کا مقصد یمن کے عوام کا دفاع اور حمایت کرنا نہیں بلکہ اسے سعودی اہلکاروں کے ہاتھوں جمال خاشقجی کے قتل پر امریکی شخصیتوں اور اداروں کے ردعمل کے تسلسل کے طور پر منظور کیا گیا ہے- اس سلسلے میں امریکی ایوان نمائندگان کے رکن اسٹنلی ہویر نے کہا کہ ٹرمپ قانون کو نظرانداز کرتے ہیں اور انھوں نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے ہونے والی بدنامی کے سلسلے میں ان کے موقف کے اعلان پر مبنی ممبران پارلیمنٹ کی درخواست کا جواب تک نہیں دیا ہے-
ایوان نمائندگان کے اس بل کی پنٹاگون نے مخالفت کی ہے۔ واضح رہے کہ ایوان نمائندگان میں اکثریت ڈیموکریٹس کی ہے- اس سلسلے میں امریکی فوج کے عہدیدار جنرل ڈیویڈ ہیل نے کہا ہے ان کا ملک بدستور جنگ یمن کی حمایت جاری رکھے گا- ہیل نے فرانس نیوز ایجنسی کے ساتھ گفتگو میں کہا ہے کہ امریکہ، عام شہریوں کی جانوں کو لاحق خطرے کو کم کرنے کے لئے عرب اتحاد کی حمایت کر رہاہے-
امریکہ کے اس سینئر کمانڈر کا دعوی ، جنگ یمن میں سعودی اتحاد کے ہاتھوں انجام پانے والے جنگی جرائم کے حقائق سے یکسر مختلف اور متضاد ہے- امریکہ، سعودی عرب کو سب سے زیادہ ہتھیار بیچنے والا ملک ہے اور اگر اس نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی فضائیہ کو انواع و اقسام کے میزائل اور بم فراہم نہ کئے ہوتے اور ان کی لاجسٹیک سپورٹ نہ کی ہوتی تو یمن کے نہتے عوام کے خلاف سعودی اتحاد کی وحشیانہ بمباریوں کا سلسلہ جاری نہ رہتا-
یمن کے خلاف سعودی اتحاد کی جنگ چھبیس مارچ دوہزار پندرہ سے جاری ہے اور اس میں اب تک پچاس ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق اور زخمی ہوچکے ہیں- اس جنگ کے نتیجے میں پچیس لاکھ یمنی شہری بے گھر ہوئے ہیں اور اس ملک کی اسی فیصد سے زیادہ بنیادی تنصیبات تباہ ہوچکی ہیں- اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل آنتونیو گوترش وہ اہم ترین عالمی شخصیت ہیں جس نے با رہا اعلان کیا ہے کہ یمن کے خلاف جنگ حالیہ عشروں کے سب سے بڑے انسانی المیے کا باعث بن چکی ہے-