Feb ۲۴, ۲۰۱۹ ۱۷:۳۰ Asia/Tehran
  • خاشقجی قتل کی پردہ پوشی ناممکن ہے: اردوغان کی تاکید

ترکی کی حکومت کا کہنا ہے کہ سعودی مخالف صحافی جمال خاشقجی کا قتل، ترکی کی سرزمین پر انجام پایا ہے اور اسی وجہ سے انقرہ کی حکومت اس قتل میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچائے بغیر دم نہیں لے گی-

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے سی این این کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ انقرہ حکومت سعودی مخالف صحافی جمال خاشقجی قتل کی تحقیقات سے دستبردار نہیں ہوگی خاص طور پر ایسے میں کہ جب اس کے قتل پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا - ترکی کے صدر نے کہا کہ اگر سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کو یہ نہ معلوم ہو کہ خاشقجی کو کس نے قتل کیا ہے تو پھر کسے معلوم ہوگا؟- 

 ترکی کے صدر نے بہت واضح الفاظ میں خاشقجی کے قتل کے ساتھ سعودی ولیعہد بن سلمان کا نام لیا ہے۔ اب تک اردوغان، جمال خاشقجی قتل کے احکامات جاری کرنے سے متعلق سعودی حکام کا نام زبان پر لانے سے اجتناب کر رہے تھے- لیکن ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ اس سیاسی قتل کی کہانی، اپنے اختتامی مراحل تک پہنچنے سے نزدیک ہو رہی ہے- اسی سبب سے انقرہ کے حکام کی کوشش ہے کہ اس قتل کا حکم دینے والوں کا نام زبان پر لاکر سعودی حکومت کو بے نقاب کریں-

حقیقت یہ ہے کہ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کا ہاتھ، ہزاروں سعودی حریت پسندوں اور حتی مشرق وسطی کے متدین مسلمانوں کے خون میں آغشتہ ہوا ہے - اس نام نہاد سعودی سیاستمدار نے گذشتہ چند برسوں کے دوران، سعودی بادشاہت کے کسی بھی مخالف پر رحم نہیں کیا ہے اور سب کو تہہ تیغ کردیا ہے- اسی سبب سے سعودی حکومت کے مخالفین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر خاص طور پر امریکہ اور یورپی حکومتوں کی جانب سے خاشقجی قتل سے بے توجہی نے سعودی ولیعہد کو، دیگر ملکوں میں پناہ لینے والے سعودی عرب کے سیاسی سرگرم کارکنوں کو نابود کرنے کے تعلق سے مزید گستاخ بنا دیا ہے- درحقیقت سعودی عرب کے سرگرم سیاسی کارکنوں کو نئے خطرات اور دھمکیوں کا سامنا ہے - اسی سلسلے میں سعودی یونیورسٹی کی پروفیسر محترمہ مضاوی الرشید  نے جمال خاشقجی کے قاتلوں کو سزا نہ دیئے جانے کو سعودی مخالفین کے لئے ایک خطرہ قرار دیا ہے- انہوں نے یورپی پارلیمنٹ کی انسانی حقوق کمیٹی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ خاشقجی قتل کیس کو، اس قتل کے ملزموں کو سزا دیئے بغیر بند کردیا جانا اس بات کا باعث بنے گا کہ بہت سے سعودی مخالفین، آل سعود کے ہاتھوں قتل ہونے کے خوف سے ہمیشہ خوف و ہراس اور تشویش کے عالم میں زندگی گذاریں-

اس کے بالمقابل سعودی ولیعہد بن سلمان، مشرق وسطی اور ایشیا کے بعض ملکوں کا دورہ کرکے اور سرمایہ کاری کے بڑے بڑے معاہدوں پر دستخط کرکے علاقے اور دنیا کی رائے عامہ کی توجہ کو سعودی عرب کی اقتصادی سرگرمیوں کی جانب مبذول کرنا چاہتے ہیں- ماہرین کا کہنا ہے کہ محمد بن سلمان کے شاندار استقبال کے لئے سعودی حکومت کے بڑے اخراجات سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ سعودی بادشاہ بھی رائے عامہ کو منحرف کرنے میں مصروف ہوگئےہیں- خاص طور پر بعض ملکوں میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری کی رقم مبالغہ آمیز لگتی ہے تاہم حقیقت سے چنداں مطابقت نہیں رکھتی- 

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سعودی حکومت کے مخالف صحافی جمال خاشقجی دو اکتوبر 2018 کو ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں داخل ہوئے تھے جس کے بعد وہ ، اسی مقام سے لاپتہ ہوگئے-  سعودی حکومت نے 19 اکتوبر کو یعنی قتل کے واقعے کے اٹھارہ دنوں بعد خاموشی اور واقعے کی تکذیب کے بعد آخرکار عالمی برادری کے دباؤ میں آکر اس بات کی تصدیق کی کہ خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں ہی قتل کردیا گیا ہے-

           

ٹیگس