Apr ۱۰, ۲۰۱۹ ۱۸:۰۰ Asia/Tehran
  • ایران کے انتباہات کے سامنے امریکہ کی پسپائی

اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے اس اعلان کے ایک دن بعد، کہ جس میں اس نے مغربی ایشیا میں تعینات تمام امریکی فوجیوں کو دہشت گرد قرار دیا ہے، امریکی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ ایران امریکہ کے لئے فوری خطرہ نہیں ہے-

امریکی ترجمان وزارت دفاع ریبککا  ریباریچ Rebecca Rebarich نے کہا ہے کہ پنٹاگون ایران کو فوری خطرہ نہیں سمجھتا ہے- واضح رہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل نے پیر کی رات کو ایک بیان میں امریکہ کی جانب سے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کا نام غیر ملکی دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کرنے کے خطرناک اور غیر قانونی اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس کے جواب میں اعلان کیا کہ یہ کونسل امریکہ کو دہشت گردی کا حامی ملک اور سنٹ کام سے موسوم امریکہ کی مرکزی کمان  اور اس سے وابستہ تمام  فورسیز کو دہشت گرد قرار دے رہی ہے-

امریکہ کے توسط سے اقوام متحدہ کے ایک رکن ملک کے فوجی ڈھانچے کو دہشت گرد اعلان کرنے کے اقدام کے مقابلے میں ایران کا اقدام تشویش کا باعث بنا ہے- اس تشویش کی وجہ یہ ہے کہ علاقے میں موجود دسیوں ہزار امریکی فوجی اور ان کے فوجی اڈے ایران کی مسلح افواج کی زد پر ہیں اور سپاہ پاسداران اسلامی کے خلاف کسی بھی قسم کے دشمنانہ اقدام کا، ایران دنداں شکن جواب دے گا- وہ بھی ایسی حالت میں کہ امریکی ڈونلڈ ٹرمپ نے بارہا عراق اور افغانستان کی جنگوں میں سات ٹریلین ڈالرز کے خرچ ہونے پر تنقید کی ہے- 

اس بنا پر سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی حمایت میں ایران میں قومی اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹھوس موقف اپنائے جانے کے بعد، توقع کی جارہی تھی کہ امریکی اپنے موقف سے پسپائی اختیار کرلیں گے اور ایسا ہی ہوا-

ایران کے ارکان پارلیمنٹ نے امریکہ کے مقابلے میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی پوزیشن کو مزید مضبوط و مستحکم بنانے کے لئے ایک بل کی منظوری دے دی ہے- ایران کی پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے بل میں کہا گیا ہے کہ اس بات کے پیش نظر کہ خود امریکی صدر ٹرمپ نے اعتراف کیا ہے کہ امریکہ نے ہی داعش گروہ تشکیل دیا ہے اور امریکا ہی مغربی ایشیا میں اس خونخوار گروہ کے جرائم کا ذمہ دار ہے اور ایسے میں جب  ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے داعش سمیت  سبھی تکفیری دہشت گرد گروہوں کو شکست دینے میں مثالی اور اہم  کردار ادا کیا ہے تو پھر سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے بارے میں امریکی حکام کا فیصلہ تمام قانونی و اخلاقی قواعد و ضوابط سے تضاد رکھتا ہے۔

ٹرمپ کے اس اقدام کے خلاف امریکہ کے اندر بھی اختلاف رائے کا پایا جانا، ایران کے فوری خطرہ نہ ہونے پر مبنی پنٹاگون کے حالیہ اعلان میں موثر رہا ہے- امریکی ذرائع ابلاغ نے اس سے پہلے اعلان کیا تھا کہ پنٹاگون اور سی آئی اے نے پہلے ہی ، سپاہ پاسداران کا نام دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کرنے کے بارے میں، ایران کے جوابی اقدام پر تشویش کے سبب مخالفت کی تھی- یہی مخالفتیں اس بات کا باعث بن گئیں کہ کئی مرتبہ وائٹ ہاؤس کی کوششیں، چاہے وہ امریکی صدر بارک اوباما کے دور میں ہوں یا ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں، بے نتیجہ رہی ہیں- لیکن ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی قومی سلامتی کی ٹیم اور وزارت خارجہ کے عہدے پر مائیک پمپئو اور قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن جیسے جنگ پسند اور انتہاپسند افراد کی موجودگی کے سبب، آخرکار سپاہ پاسداران کے خلاف اقدام کو امریکی صدر نے قبول کرلیا- 

اس کے باوجود امریکی صدر کا سیکورٹی مخالف رویہ، اس ملک میں مخالفتوں کا باعث بنا ہے- علاقے میں موجود امریکہ کے فوجی اور انٹلی جنس حکام اور واشنگٹن میں موجود ان سے بالاتر حکام، سبھی ایران کے اس فیصلے کو بخوبی درک کر رہے ہیں- اسی بنا پر ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ سپاہ پاسداران کے خلاف وائٹ ہاؤس کے حالیہ بیان پر یہ حکام ضرور لیت و لعل سے کام لیں گے یا کم از کم کوشش کریں گے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان فوجی ٹکراؤ کے امکان کو کم سے کم کردیں- کیوں کہ رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای کے بقول اب مار کے بھاگ جانے کا وقت گذر چکا ہے ، اب امریکہ کے کسی بھی دشمنانہ اقدام کا ایران کی جانب سے ٹھوس اور دنداں شکن جواب دیا جا ئے گا-

امریکہ کے سابق صدر بارک اوباما کے دور میں امریکہ کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن بھی  اسی حقیقت پر تاکید کرتے ہوئے کہتی ہیں: ‎ایک غیر ملکی فوج کو ہم ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے کے، اپنی فوج کے لئے خاص طور پر ایران کے پڑوسی ملک عراق میں، خطرہ پیدا کر رہے ہیں-      

 

  

ٹیگس