May ۱۸, ۲۰۱۹ ۱۸:۱۹ Asia/Tehran
  • ظریف کا دورۂ بیجنگ ، چندجانبہ سیاسی و اقتصادی مذاکرات

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف چار ایشیائی ملکوں کے اپنے دورے کے اختتام پر چین گئے اور وہاں کے حکام سے مذاکرات انجام دیئے جس سے ایران کی علاقائی ڈپلومیسی کے نئے دور کے آغاز کی نشاندہی ہوتی ہے-

یہ دورہ، ترکمنستان سے شروع ہوا جس کے بعد جواد ظریف ہندوستان ، جاپان اور چین گئے اور وہاں کے حکام سے ملاقات اور گفتگو کی- ایران کے وزیر خارجہ نے جمعے کو بیجنگ میں اپنے چینی ہم منصب سے تبادلۂ خیال کیا- ان مذاکرات میں ظریف کی گفتگو کے محور سے پتہ چلتا ہے کہ ظریف کا دورہ، صاف و شفاف اور واضح پیغام کا حامل تھا- 

علاقے میں کشیدگی کا ماحول پیدا کرنے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہٹ دھرمانہ اور غیر عاقلانہ اقدامات اور اس کی ناقابل توجیہ پالیسیاں، چار ایشیائی ملکوں کے دورے میں جواد ظریف کے مذاکرات کا محور تھیں- سیاسی مذاکرات کے علاوہ ، مشرق میں ایران کی معاشی سفارتکای کے فروغ کے پیش نظر دوطرفہ تجارتی و اقتصادی مسائل بھی ظریف کے مذاکرات میں اہمیت کے حامل تھے - خاص طور اس لحاظ سے کہ چین اور ہندوستان، ایران کے دو اہم تیل کے خریدار ملک اور اس کے تجارتی شریک ہیں-

چین کے وزیرخارجہ وانگ یی نے محمد جواد ظریف کے ساتھ مذاکرات کے دو دور انجام دیئے جس میں انہوں نے سیاسی ، اقتصادی، تجارتی، ثقافتی، توانائی، دہشت گردی سے مقابلے اور باہمی دلچسپی سے متعلق شعبوں میں ایران کے ساتھ تعلقات میں توسیع پر تاکید کرتے ہوئے ایٹمی معاہدے کو سفارتکاری کا اہم کارنامہ اور کثیر فریقی تعاون کا ایک مثالی نمونہ قراردیا- وانگ یی نے ہر قسم کی یکطرفہ پسندی کو مسترد کرتے ہوئے ، ایٹمی معاہدے کے تحفظ کے لئے ایران اور عالمی برادری  کے ساتھ چین کا تعاون جاری رہنے پر تاکید کی- ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے اس موقع پر کہا کہ چین، ایران کا اہم تجارتی شریک ہے اور دونوں ممالک دنیا میں چند جانبہ اور کثیر فریقی تعاون کے فروغ پر یقین رکھتے ہیں۔

چائنہ کسٹمز ایڈمنسٹریشن کے عہدیدار لی کوی ون (Li kui wen) ، اقتصادی لین دین میں توسیع کو ایران کے ساتھ تعاون میں ترقی اور فروغ کی علامت قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں: بیجنگ ، امریکہ یا کسی بھی ملک کی معاشی اجارہ داری یا یکطرفہ پسندی کا مخالف ہے اور اس ملک کے داخلی قوانین چین کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے-  

چین کے کیمیکل اور تیل کی صنعت فیڈریشن کے بین الاقوامی امور کے دفتر سربراہ " انڈری یو" نے بھی کہا ہے کہ چینی کمپنیوں کو ہر حالت میں ایران کے تیل کی ضرورت ہے اور وہ ایران سے تیل کی خریداری جاری رکھیں گی - یہ ایران اور چین کے درمیان ایک معمول کی بات ہے اور اس کا امریکہ سے کوئی ربط نہیں ہے-

چین کے صدر شی جین پینگ نے بھی ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر ڈاکٹرعلی لاریجانی کے حالیہ دورۂ چین کے موقع پر کہا تھا کہ عالمی اور علاقائی صورتحال میں خواہ کتنی بھی تبدیلی کیوں نہ آجائے ، لیکن ایران کے ساتھ جامع اسٹریٹیجک رابطہ قائم رکھنے میں، چین کے عزم میں کوئی تغیر نہیں آئے گا-

سیکورٹی مسائل سے قطع نظر، آزاد تجارت کے اصولوں کی پابندی اور امریکہ کی یکطرفہ پابندیوں کے مقابلے میں ڈٹ جانے کو عالمی سطح پر اہمیت حاصل ہے- درحقیقت واشنگٹن کی یکطرفہ پسندی کے مقابلے میں ڈٹ جانا ، بین الاقوامی مفادات کے دفاع کے مترادف، اور ایران اور ایٹمی معاہدے کے مسئلے سے بالاتر ہے- 

ڈاکٹر جواد ظریف نے اپنے دورۂ ٹوکیو میں ، تین چینلوں این ایچ کے، کیوڈو، اور ٹی بی ایس کے نامہ نگاروں  کے ساتھ مشترکہ انٹرویو میں، عالمی تعلقات میں اسی اہم مشکل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مہذب دنیا کو چاہئے کہ وہ عالمی قوانین کی رعایت کرنے والے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل کرنے والے ملکوں کے خلاف، امریکہ کی ہٹ دھرمی اور آمرانہ چالوں کے مقابلے میں ڈٹ جائیں- 

اس وقت دنیا میں امریکہ کی اقتصادی اجارہ داری کا دور ختم ہوچکا ہے اور واشنگٹن اس حقیقت کو تبدیل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا - ایک ایسا بھی دور تھا کہ جس میں امریکی منڈی کو ہاتھ سے کھودینا، چین جیسے ملکوں کی نابودی کے مترادف تھا لیکن اب وہ دور نہیں رہا - ساتھ ہی ایران کی معاشی خود مختاری اور اقتصادی گنجائشیں بھی ایٹمی معاہدے کے قبل کے برسوں سے بہت زیادہ مختلف ہیں- اس کے باوجود اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ ایٹمی معاہدہ آخری سانسیں لینے لگے پھر بھی ڈپلومیسی کی طاقت سے یہ ظاہر ہونا چاہئے کہ سارے راستے واشنگٹن پر ہی ختم نہیں ہوتے اور دنیا امریکہ کی پیروی کرنے پر مجبور نہیں ہے-

      

 

 

  

ٹیگس