مغربی ایشیا میں کشیدگی بڑھانے کی امریکی کوشش
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ جب سے برسراقتدار آئے ہیں، اس وقت سے ہی مغربی ایشیا خاص طور سے خلیج فارس کے علاقے پر خاص توجہ دے رہے ہیں حتی انھوں نے اپنا پہلا دورہ ، سعودی عرب کا انجام دیا ہے تاکہ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں مغربی ایشیا کی اہمیت اور واشنگٹن کے علاقائی اتحادیوں کی پوزیشن کی یاد دہانی کرائیں - البتہ ٹرمپ نے با رہا سعودی حکومت کی تحقیر و توہین کرتے ہوئے اسے دودھ دینے والی گائے سے تعبیر کیا ہے-
حالیہ دنوں میں مغربی ایشیاء میں کشیدگی بڑھانے کی ٹرمپ حکومت کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں- اس سلسلے میں انھوں نے خلیج فارس میں بی 52 ابراہیم لنکن طیارہ بردار بحری بیڑا بھیجنے اور پیٹریاٹ میزائل سسٹم تعینات کرنے کے بعد علاقے میں مزید فوجی روانہ کرنے کی خبر دی ہے - ٹرمپ نے جمعے کو مغربی ایشیاء میں پندرہ سو مزید فوجیوں کو بھیجنے پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ان فوجیوں کی تعیناتی ڈٹرندٹ اہداف کے تحت انجام پا رہی ہے- ان فوجیوں کی تعیناتی ایسے عالم میں انجام پا رہی ہے کہ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اس علاقے میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی پر تنقید کی تھی اور وعدہ کیا تھا کہ انتخابات میں کامیاب ہونے کی صورت میں ان فوجیوں کو ملک واپس بلا لیا جائے گا- پنٹاگون نے اس تبدیلی کو کم اہمیت ظاہر کرنے کے لئے اعلان کیا کہ مغربی ایشیاء بھیجے جانے والے فوجیوں میں ٹیکنیشئن اور انجینئرہیں- امریکی وزارت جنگ کے دعوے کے مطابق مغربی ایشیاء میں بھیجے جانے والے پندرہ سوفوجیوں میں سے صرف نو سو جدید فوجی ہیں اور چھے سو فوجی پہلے سے ہی اس علاقے میں موجود تھے جن کی تعیناتی کی مدت میں توسیع کی جائے گی- ٹرمپ کے اس اقدام پرکافی مخالفتیں ہورہی ہیں - امریکی ایوان نمائندگان کی مسلح افواج کمیٹی کے سربراہ ایڈم اسیمتھ نے جمعے کو تہران کو دھمکانے کی غرض سے علاقے میں مزید فوجی بھیجنے کے فیصلے پر اعتراض کیا - اسمیتھ نے ایک بیان میں علاقے میں فوجی موجودگی مضبوط بنانے کے لئے ٹرمپ کے فیصلے کو تشویشناک قرار دیا اور کہا کہ کسی واضح اسٹریٹیجی کے بغیر فوجیوں اور فوجی ساز و سامان میں اضافہ کرنا ایک غیرعاقلانہ اقدام ہے اور ایسا نظر آتا ہے کہ یہ ایران کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کے لئے کھلا قدم اور منھ زوری ہے-
فوجی موجودگی بڑھانے کے واشنگٹن کے حالیہ اقدامات ، امریکی فوجیوں اور علاقے میں امریکی اتحادیوں کے مفادات کو درپیش خطرے کے بہانے انجام پائے ہیں- اس کے باوجود ایسا نظر آتا ہے کہ واشنگٹن علاقے میں جان بوجھ کر کشیدگی بڑھا کر اپنے مدنظراہداف منجملہ ایرانوفوبیا اوراپنے علاقائی اتحادیوں کو اسلحے کی فروخت بڑھانے کی کوشش کررہا ہے-
اس سلسلے میں وائٹ ہاؤس نے جمعے کو خبر دی کہ وہ کانگریس کی اجازت کے بغیر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ہتھیار بیچنے کا ارادہ رکھتا ہے- اس طرح ٹرمپ حکومت نے ایران کے ساتھ کشیدگی بڑھنے کے بہانے کانگریس کے قوانین کو نظرانداز کیا اور سعودی عرب و دیگر ممالک کو کئی ارب ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت کا عمل تیز کردیا - ڈیموکریٹ سینیٹر باب مننڈز سمیت کئی امریکی سینیٹروں نے اعلان کیا ہے کہ ٹرمپ حکومت نے کانگریس کمیٹی کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ آٹھ ارب ڈالرکی مالیت کی بائیس قراردادوں پر عمل درآمد کی خبر دے دی ہے-
تاہم واشنگٹن کے اقدامات پر اس کے عالمی حریف ماسکو نے ردعمل ظاہر کیا ہے - روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے کہا کہ واشنگٹن ، تہران کے خلاف اشتعال انگیز اقدامات کر کے اسے نہ ختم ہونے والی مقابلہ آرائی کی جانب لے جا رہا ہے کہ جس کے خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں - نہ صرف روس بلکہ اس وقت دیگر بین الاقوامی طاقتیں حتی واشنگٹن کے یورپی اتحادی بھی علاقے میں ٹرمپ حکومت کی نئی مہم جوئی پر تشویش میں مبتلاء ہیں - اس مسئلے کی اہمیت اور اس کے خطرناک نتائج کے پیش نظر ماسکو کی کوشش ہے کہ اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کرے- روس کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ ممکن ہے وہ امریکی اقدام سلامتی کونسل میں بھی زیربحث لائے -