ایران کے لئے ٹرمپ انتظامیہ کے متضاد پیغامات
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہمیشہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف دشمنانہ موقف اپنایا ہے اور تہران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈال کر اسے واشنگٹن کے مطالبات کے سامنے جھکنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی ہے-
یہ ایسے میں ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کا یہ منفی رویہ ، اس کی توقعات کے برخلاف، اور واشنگٹن کے مدنظر اثرات کا حامل نہیں رہا ہے- اسی لئے اس وقت بعض علامات ایسی ظاہر ہو رہی ہیں کہ جن سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ ایران کے ساتھ مذاکرات کی کوشش میں ہے- چنانچہ ٹرمپ نے جہاں تہران کے ساتھ مذاکرات کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کیا ہے وہیں ایک ٹیلیفون نمبر بھی ایران میں امریکی مفادات کے محافظ کی حیثیت سے سوئٹزر لینڈ کو دیا ہے تاکہ ایرانی حکام اس سے رابطہ کریں- ٹرمپ نے اپنے حالیہ دورۂ جاپان میں اس ملک کے وزیر اعظم شینزو آبہ کی جانب سے ثالثی کا کردار ادا کرنے اور اسی تعلق سے ان کے دورۂ تہران کا خیر مقدم کیا ہے-
ایران کے بارے میں امریکی صدر کے متضاد بیانات سے امریکا میں ایک صیہونی لابی کے سربراہ کو شدید حیرت اور تشویش پیدا ہوگئی ہے۔ امریکا میں ایک صیہونی لابی ڈیفنس آف ڈیموکریسی کے سربراہ مارک دیبوویٹز نے کہا ہے کہ میں حیران ہوں کہ امریکی صدر ٹرمپ کیوں ایرانی حکام سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ایران اقتصادی اعتبار سے خوشحال رہے تو مجھے خوشی ہوگی جبکہ ایران ہمیشہ اسرائیل کے خلاف پالیسیاں بناتا ہے۔ صیہونی حکومت کے اس حامی نے کہا کہ کیا ٹرمپ نے امریکی وزیرخارجہ پمپیؤ کی بارہ شرطوں میں سے ایک بھی شرط ایٹمی معاملے کے تعلق سے ایران کوپیش کی ہے؟ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے دورہ جاپان میں متضاد بیانات اور موقف کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے تہران اور واشنگٹن کے مابین کشیدگی کے حوالے سے کہا کہ امریکا ایران میں حکومت کی تبدیلی نہیں چاہتا بلکہ امریکا چاہتا ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیاروں تک رسائی حاصل نہ کرسکے۔ ٹرمپ نے اپنے متضاد بیانات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہ جن میں انہوں نے ایرانیوں کو دہشت گرد قراردیا تھا کہا کہ میں ایرانیوں کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں اور ایرانی قوم ایک عظیم قوم ہے۔
ان تمام مواقف اور اقدامات کے باوجود واشنگٹن بدستور ایران کے خلاف دباؤ بڑھا رہا ہے اور ایرانو فوبیا پر زور دے رہا ہے اور ایران کے نام نہاد خطروں سے مقابلے کے لئے عرب ملکوں سے متحد ہونے کی اپیل کی ہے- اس طرح سے ٹرمپ انتظامیہ ، بیک وقت دباؤ اور مذاکرات کی دعوت کے ہتھکنڈے کو ایران کے خلاف استعمال کر رہی ہے- اسی سلسلےمیں امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان مورگن اورٹیگیس Morgan Ortagus نے کہا ہے کہ ان کا ملک ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کا سلسلہ جاری رکھے گا تاکہ تہران کو مذاکرات پر مجبور کرسکے- اورٹیگس نے ایک پریس کانفرنس میں دعوی کیا کہ ہم ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ جاری رکھیں گے تاکہ یہ ملک ایک نئے جامع معاہدے کے سلسلے میں مذاکرات پر مجبور ہوجائے- امریکہ نے ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے بعد سے ایران کے خلاف ہمہ جانبہ یلغار شروع کر رکھی ہے- واشنگٹن نے کہا ہے کہ اس یلغار سے اس کا مقصد تہران کے ساتھ ایک نیا معاہدہ انجام دینا ہے کہ جس میں امریکہ کے مدنظر تمام مسائل شامل ہوں-
امریکہ کا یہی رویہ اس بات کا باعث بنا ہے کہ واشنگٹن کے تسلط پسندانہ اہداف کی مخالف ایک عالمی طاقت کی حیثیت سے روس نے اس پر کڑی نکتہ چینی کی ہے- اسی سلسلے میں روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے اپنے دورۂ تہران میں ایرانی حکام کے ساتھ مذاکرات میں امریکہ کے ایران مخالف اقدامات پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن اسلامی جمہوریہ ایران کو ڈرانے دھمکانے کے درپے ہے- ریابکوف نے ایک انٹرویو میں جو جمعرات کی صبح کو شائع ہوا کہا ہے کہ اگر امریکہ واقعی میں ایران کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت کا خواہاں ہے تو اسے اعلان کرنا چاہئے کہ وہ مذاکرات میں ایران کی شرکت کے عوض کیا چیز پیش کرنا چاہتا ہے-
امریکہ کا دوہرا اور دشمنانہ رویہ اور اس کی عدم صداقت اس کا بات سبب بنی ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے بھی واشنگٹن سے کسی بھی قسم کے مذاکرات کو مسترد کیا ہے- رہبر انقلاب اسلامی نے بدھ کو ایران کی بعض یونیورسٹیوں کے اساتذہ ، اور دانشوروں سے ملاقات میں فرمایا کہ جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کی پہلی وجہ یہ ہے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ اس کے نقصانات بھی ہیں- آپ نے اپنے ایک اور خطاب میں فرمایا کہ ایرانی قوم کا حتمی آپشن، امریکہ کے مقابلے میں استقامت و مزاحمت ہے اور اس مقابلے میں امریکہ پسپائی پر مجبور ہوجائے گا-