جامع ایٹمی معاہدہ کو باقی رکھا جائے، روس
روس نے جو گروپ چار جمع ایک کا اہم رکن ہے، جامع ایٹمی معاہدہ کو باقی رکھے جانے پر زور دیا ہے۔
گزشتہ سال مئی میں ایٹمی معاہدہ سے امریکہ کے یک طرفہ طور پر نکل جانے اور ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کے منفی اثرات کم کرنے کے لئے ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنے کی یورپی ممالک کی بار بار کی وعدہ خلافی نے ایٹمی معاہدہ کو بحرانی حالت سے دوچار کردیا ہے جس سے روس کو تشویش لاحق ہوگئی ہے۔ اس سلسلہ میں روس کا تازہ موقف بھی سامنے آیا ہے۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے کہا ہے کہ ایٹمی معاہدہ میں مذکور افزودہ یورینیم کے ذخائر میں اضافہ ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کا نتیجہ ہے۔ ماریا زاخارووا نے کہا کہ ”ایٹمی معاہدہ میں مذکور افزودہ یورینیم کے ایرانی ذخائر میں اضافہ ہوا ہے لیکن جیسا کہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے بھی کہا ہے یہ امر درحقیقت بدلتے حالات کا ناقابل انکار اور منطقی نتیجہ ہے۔ ایران کے خلاف امریکی پابندیوں نے ایران کے لئے ایٹمی معاہدہ کے مطابق عمل کرنا ناممکن بنا دیا ہے۔“ روس کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے ایٹمی معاہدہ کی پابندی نہ کرنا اور ٹرمپ حکومت کے ایٹمی معاہدہ کے برخلاف اقدامات، خاص طور سے ایران کے خلاف دوبارہ پابندیاں لگانا، موجودہ کشیدہ صورت حال کی اصل وجہ ہے۔ روس کے مطابق ایران کے بارے میں امریکہ کا رویہ بین الاقوامی اصول و قوانین کے بالکل خلاف ہے اور علاقائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی کو خطرہ میں ڈالنے کا باعث بھی بنا ہے بلکہ لڑائی جھگڑے اور تصادم کے خطرہ میں اضافہ بھی امریکی رویہ نے کردیا ہے۔ لہٰذا ایٹمی معاہدہ سے متعلق بحرانی صورت حال کے خاتمہ کے لئے ضروری ہے کہ نہ صرف امریکہ بلکہ یورپی یونین اور یورپی مثلث یعنی برطانیہ، فرانس اور جرمنی سمیت یورپی فریق بھی جلد سے جلد ایٹمی معاہدہ سے متعلق اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرتے ہوئے تہران کی طرف قدم بڑھائیں اور اس سلسلہ میں تساہلی سے کام نہ لیں۔
اہم بات یہ ہے کہ ایٹمی معاہدہ میں مذکور افزودہ یورینیم کے ذخائر میں اضافہ کا ایران کا اقدام غیر قانونی نہیں ہے اور روس نے بھی اس اقدام سے اتفاق کیا ہے۔ اس سلسلہ میں ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی، آئی اے ای اے، میں روس کے نمائندہ میخائل اولیانوف نے کہا ہے کہ ایران کے لئے افزودہ یورینیم کے ذخائر کی کوئی محدودیت نہیں ہے اور ایران نے اس سلسلہ میں رضاکارانہ طور پر محدودیت کو قبول کیا تھا۔ انہوں نے اپنے ٹوئیٹر پر افزودہ یورینیم کے ذخائر میں اضافہ کے ایرانی اقدام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ این پی ٹی معاہدہ کے رکن ممالک کے لئے نچلی سطح کے افزودہ یورینیم کے ذخائر میں اضافہ کرنے کی کوئی محدودیت نہیں ہے جبکہ وہ بین الاقوامی نگرانی میں ہوں۔“ میخائل اولیانوف نے یہ بھی کہا کہ اس سلسلہ میں تہران کا اقدام درحقیقت ایران کے خلاف امریکہ کی غیرقانونی پابندیوں، خاص طور سے تیل کی فروخت پر پابندیوں کا ردعمل ہے۔ سیاسی مبصرین نے بھی اس بارے میں اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ مثلاً بوسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر کاوہ افراسیابی نے ایک خصوصی انٹرویو میں ایٹمی معاہدہ کی بعض شقوں پر ایران کے عمل نہ کرنے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیس فی صد یورینیم افزودگی کی بحالی کے ایرانی اقدام پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی اقدام فریق مخالف کی طرف سے ایٹمی معاہدہ کی پابندی نہ کرنے کا مناسب جواب ہے۔ ایران کا ایٹمی پروگرام پوری طرح سے پُرامن ہے اور آئی اے ای اے ایرانی تنصیبات کی غیر معمولی نگرانی کر رہی ہے۔
بہرحال، ایران نے گروپ چار جمع ایک، خاص طور سے گروپ کے یورپی اراکین، کو اپنے وعدوں پر عمل کرنے کے لئے جو ساٹھ دن کی مہلت دی تھی اب اس میں صرف دو دن بچے ہیں لیکن یورپ والے ایران سے صبر کرنے اور مالی پیکیج، انسٹیکس، کے بارے میں اپنے وعدوں پر عمل کرنے کے لئے مزید وقت کے خواہاں ہیں تاہم ایرانی صبر انتہا کو پہنچ چکا ہے اور روس نے بھی اس سلسلہ میں اتفاق رائے کا اظہار کیا ہے۔