سعودی عرب اور جنوبی عبوری کونسل کے درمیان مذاکرات
سعودی عرب کے حکام سے مذاکرات کے لئے عیدروس الزبیدی کی قیادت میں جنوبی یمن کی عبوری کونسل کا ایک وفد ریاض کے دورے پر ہے-
جنوبی یمن کی عبوری کونسل کے وفد کے دورے کے سلسلے میں کچھ اہم نکات ہیں جو قابل غور ہیں-
سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ یہ دورہ سعودی عرب کی درخواست پر انجام پایا ہے- سعودی عرب سے وابستہ ارم نیوز ویب سائٹ نے لکھا ہے کہ یہ وفد ریاض کی درخواست پرسعودی عرب کا دورہ کر رہا ہے اور اس کا مقصد سعودی عرب کے حکام سے مذاکرات کرنا ہے- یہ موضوع اس لئے اہم ہے کہ ریاض جنوبی عبوری کونسل کو راضی کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ کچھ مراعات کے عوض منصورہادی کی مستعفی حکومت سے تعاون کرے-
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جنوبی عبوری کونسل کا پانچ افراد پرمشتمل وفد سعودی عرب میں یمن کے مستعفی صدر منصور ہادی سے بھی ملاقات اور گفتگو کرے گا- یہ دورہ ، یمن کی مفرور و مستعفی منصورہادی حکومت کے فوجیوں کے مقابلے میں عبوری کونسل کی کامیابیوں کے بعد انجام پایا ہے- عبوری کونسل کے جنگجؤوں نے منصور ہادی کے فوجیوں سے چند ہی دنوں کی جھڑپوں کے بعد دس اگست کو عدن میں کاخ معاشیق پر قبضہ کرلیا اور منصوری ہادی اور یمن کے اقتدار کے ڈھانچے میں ان کی حکومت کی پوزیشن مزید کمزور کردی - درحقیقت اس وقت عبوری کونسل کا وفد ایسی حالت میں سعودی عرب میں منصور ہادی سے گفتگو کرے گا کہ وہ یمن کے مستعفی صدر کے مقابلے میں برتر پوزیشن کا حامل ہے-
تیسری بات یہ ہے کہ ایسا نظر آتا ہے کہ عبوری کونسل نے منصورہادی کی مستعفی حکومت کے ناکارہ پن کا اندازہ لگا لیا ہے اور اسی تناظر میں خود کو جنوبی یمن میں برتر طاقت کے طور پر پیش کر رہی ہے اور سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات کو اسی تناظر میں آگے بڑھائے گی- عبوری کونسل کے اس رویے کا مطلب یہ ہے کہ جنوبی یمن میں متحدہ عرب امارات کو برتری حاصل ہے- تازہ ثبوت و شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ جنگ یمن کے بارے میں سعودی عرب کی تشویش بڑھ گئی ہے- اسی سلسلے میں یمن کی تحریک انصاراللہ کے ترجمان محمد عبدالسلام نے سعودی عرب کی جانب سے یمن کے داخلی محاذوں سے مختلف ملکوں کے نوّے ہزار کرائے کے جنگجؤوں کو باہر نکالنے اور انھیں جنوبی سعودی عرب کے سرحدی محاذوں پرتعینات کرنے کے اقدامات کی خبر دی اور کہا ہے کہ ریاض نے یمن پر قبضہ کرنے کی کوشش ترک کردی ہے اور اب اسے اپنے سرحدی علاقے ہاتھ سے نکلنے کی تشویش لاحق ہوگئی ہے-
چوتھی بات یہ ہے کہ ایسا نظر آتا ہے کہ عبوری کونسل سے سعودی عرب کے مذاکرات کا نتیجہ منصور ہادی کو بائی پاس کرنے کی شکل میں نکلے گا- منصور ہادی کو ملکی سطح پر بھی اور جنوبی یمن کی سطح پر بھی اپنی مقبولیت اور قانونی ہونے کے بحران کے ساتھ ہی عدم کفایت کے بحران کا بھی سامنا ہے یہاں تک کہ علحدگی پسندوں کے مقابلے میں منصور ہادی کی مستعفی حکومت کے فوجی صرف چار دن کی جنگ میں ہی شکست سے دوچار ہوگئے ہیں جبکہ یمن کی مستعفی حکومت اور خود منصور ہادی ، عبوری کونسل کے ساتھ کسی بھی طرح کے مذاکرات کے مخالف ہیں - سعودی عرب نے گذشتہ ایک ہفتے میں عبوری کونسل سے کئی مذاکرات کئے ہیں اوراس وقت سعودی عرب میں اس کونسل کی میزبانی کررہا ہے- گذشتہ ہفتے ابوظہبی کے ولیعھد محمد بن زاید کا دورہ سعودی عرب اور شاہ سلمان اور ولیعہد محمد بن سلمان سے مذاکرات نیز منصورہادی و امارات کے درمیان کھلے اختلافات کی بنا پر منصور ہادی کو بائی پاس کرتے ہوئے امارات اور عبوری کونسل کے ساتھ سعودی عرب کے سمجھوتے کا امکان بھی پایا جاتا ہے-