مغربی ایشیا میں امریکی فوجی موجودگی جاری رکھنے پر واشنگٹن کی تاکید
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مغربی ایشیا خاص طور پر شام اور افغانستان سے اپنے فوجیوں کو باہر نکالنے کے بارہا کئے گئے وعدوں کے باوجود، موجودہ حالات سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ واشنگٹن اپنی ہٹ دھرمانہ اور آمرانہ پالیسی کے تحت مغربی ایشیا میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں مزید اضافہ کرنے اور ان کو مسلح کرنے میں کوشاں ہے-
امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک میلی نے اتوار کو، مغربی ایشیا کے علاقے میں امریکی فوج کی موجودگی کو، امریکہ کی قومی سلامتی کے مفادات کی راہ میں قرار دیتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن طولانی مدت تک اس خطے میں باقی رہے گا- میلی نے نیوز ایجنسی اے بی سی کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ امریکی فوجیوں کا آئندہ کئی برسوں تک عراق، شام اور افغانستان میں موجود رہنے کا امکان ہے- ان کے بقول تقریبا چھ سو امریکی فوجی شام میں باقی رہیں گے- پنٹاگون کے اس سینئر عہدیدار نے دعوی کیا کہ مغربی ایشیا میں امریکی فوجیوں کو باقی رکھنے کا مقصد علاقے کے ملکوں کو دہشت گردوں کی پرامن پناہ گاہ بننے سے روکنا ہے-
مغربی ایشیا میں امریکی فوجیوں کی موجودگی جاری رہنے پر واشنگٹن نے ایک بار پھر ایسے میں تاکید کی ہے کہ علاقے کے حکام اور عوام کے مطابق امریکہ خود علاقے میں دہشت گردی کی اصلی جڑ اور اسے بڑھاوا دینے والا ہے- امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے سن 2001 میں دہشت گردی سے مقابلے اور افغانستان میں امن و امان کی بحالی کے بہانے اس ملک پر حملہ کیا تھا لیکن اس وقت سے اب تک افغانستان میں بدامنی ، دہشت گردی اور منشیات کو نمایاں فروغ حاصل ہوا ہے اور ساتھ ہی واشنگٹن نے اس جنگ زدہ ملک میں داعش کی سرگرمیوں کی زمین فراہم کی ہے-
شام کا بحران بھی 2011 میں، امریکہ اور مغربی و عرب اتحادیوں کی وسیع پیمانے پر دہشت گردوں منجملہ داعش کی حمایت کے ذریعے، شام کی حکومت کا تختہ پلٹنے، مزاحمتی محور کو نابود کرنے اور علاقے کے توازن کو صیہونی حکومت کے حق میں تبدیل کرنے کے مقصد سے شروع کیا گیا اور واشنگٹن ابھی بھی مشرقی شام میں آئیل فیلڈز کی حفاظت کے بہانے سے، اپنی غیر قانونی موجودگی جاری رکھے ہوئے ہے-
دوسری جانب حالیہ مہینوں میں ایران کے تیل کی برآمدات کو روکنے کے مقصد سے، خلیج فارس میں امریکی فوج کی تعیناتی میں تیزی آئی ہے- امریکہ نے ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کے دائرے میں نہ صرف تہران کے خلاف اپنی پابندیوں کو حد سے زیادہ بڑھا دیا ہے بلکہ خلیج فارس اور اس کے اطراف میں ایران کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے فوجیوں کی تعداد میں بھی اضافہ کر دیا ہےاور تین ہزار تازہ دم فوجی نیز سعودی عرب کو جنگی طیارے، میزائل اور ایئر ڈیفنس سسٹم ارسال کرکے عملی طور پر علاقے میں بدامنی اور عدم استحکام میں اضافے کے لئے حالات سازگار بنادیئے ہیں- پنٹاگون نے اس بارے میں دعوی کیا ہے کہ سعودی عرب میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی، مزید دفاعی قوت فراہم کرسکتی ہے-
ٹرمپ نے اپنے انتخابی وعدے پورے کرنے کے مقصد سے کئی مرتبہ شام اور افغانستان سے اپنے فوجیوں کوباہر نکالنے کی بات کہی، اس کے باوجود امریکہ نے ایک بار پھر اپنا موقف تبدیل کرکے، ان دونوں ملکوں میں اپنی فوجی موجودگی جاری رکھنے کی خبر دی ہے-
افغانستان اور شام سے امریکی فوجیوں کو نکالے جانے کے ٹرمپ کے متضاد مواقف اور ان دونوں ملکوں میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی جاری رکھنے پر مبنی ان کا حالیہ موقف ، پہلے مرحلے میں امریکی انتظامیہ کے غیرملکی اقدامات و اہداف کے مبہم اور نامعلوم ہونے کا آئینہ دار ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکی صدر اور اقتدار کے ڈھانچے میں موجود افراد کے درمیان ، افغانستان اور شام میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے-
امریکہ کے علاقائی وعدوں میں کمی کے بارے میں ٹرمپ کا رویہ، اس بات کا باعث بنا کہ انہوں اپنے نے ایک اچانک فیصلے میں انیس دسمبر 2018 کو شام سے امریکی فوجیو کو نکالنے کا اعلان کردیا- تاہم اندرون ملک اور واشنگٹن کے یورپی اتحادیوں کے شدید دباؤ کے نتیجے میں مجبور ہوکر ٹرمپ نے شام کے تعلق سے اپنے سابقہ موقف سے پسپائی اختیار کرلی- اور یہی مسئلہ افغانستان کے بارے میں بھی صادق آتا ہے-
اس وقت ٹرمپ کے وعدوں کے باوجود تقریبا چودہ ہزار امریکی فوجی بدستور افغانستان میں موجود ہیں اور یہ صورتحال، افغانستان میں نامعلوم مدت تک، امریکہ کی فوجی موجودگی جاری رہنے اور ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس کے فیصلوں پر امریکی اقتدار کے ڈھانچے کےغلبے کی آئینہ دارہے-