برلن کانفرنس، لیبیا کے بحران کے حل کی ایک کوشش
لیبیا میں جنگ ایسی حالت میں جاری ہے کہ اس ملک میں جھڑپوں اور لڑائیوں کے خاتمے کے لئے علاقائی و بین الاقوامی کوششیں ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہیں-
اسی سلسلے میں برلن امن کانفرنس ، لیبیا کے بحران کا جائزہ لینے اور اس بحران کے حل کے لئے سیاسی راہ حل تلاش کرنے کے مقصد سے منعقد ہوئی لیکن لیبیا میں متصادم دونوں دھڑوں میں سے کسی ایک نے بھی اس کانفرنس کا خیرمقدم کیا اور نہ ہی اس میں شرکت کی-
جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے کہا کہ ہم نے ایک نئے عمل کا آغاز کیا ہے تاکہ لیبیا کے عوام کے لئے امید کی ایک کرن پیدا ہوجائے- ہمارا مقصد اقوام متحدہ کے منصوبے کی حمایت کرنا ہے- ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ لیبیا میں سیاسی راہ حل کی ضرورت ہے نہ کہ کسی طرح کی فوجی کاروائی کی - کیوں کہ فوجی راہ حل سے لیبیا کے عوام کے مصائب و آلام میں مزید اضافہ ہوگا-
اس کانفرنس کے شرکا نے لیبیا کو ہتھیاروں کی درآمد پر پابندی کا احترام کرنے اور مستقبل میں اس مسئلے پر بہتر نگرانی کی ضرورت پر تاکید کی- لیبیا میں جاری خانہ جنگی میں غیر ملکی مداخلت کو محدود کرنے اور شمالی افریقہ کے ملکوں میں گروپوں کے درمیان تشدد کا پرامن طریقےسے خاتمہ کرنے کےلئے دنیا کی کئی اہم طاقتوں نے ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کئے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ لیبیا میں جھڑپیں جاری ہیں- خلیفہ حفتر کہ جو مشرقی لیبیا کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں، مدتوں سے طرابلس پر قبضے اور اس ملک میں مرکزی حکومت کی تشکیل کے درپے ہیں- اسی سبب سے حفتر نے طرابلس اور دیگر اہم شہروں پر اپنے حملے تیز کردیئے ہیں-یہ صورتحال اس بات کا باعث بنی ہے کہ غیرملکی مداخلتوں میں اضافہ ہوگیا ہے اور سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات باضابطہ طور پر خلیفہ حفتر کی حمایت کر رہے ہیں اور اس وقت خلیفہ کے اقدامات، ان ہی دو ملکوں کی شہہ پر اور ان کی اسلحہ جاتی اور مالی مدد و حمایت کی بنا پر انجام پا رہے ہیں- بعض ذرائع نے متحدہ عرب امارات کے توسط سے سات سو سے زائد فوجیوں کو لیبیا بھیجے جانے اور امارات کے لڑاکا طیاروں کے توسط سے لیبیا کے مختلف علاقوں پر بمباری کی خبر دی ہے-
یہی صورتحال اس بات کا باعث بنی کہ لیبیا کی قومی وفاق حکومت نے بھی انقرہ سے اپنی پوزیشن کے تحفظ کے لئے مدد کی درخواست کی- اسی تناظر میں لیبیا کے ساتھ فوجی اور سیکورٹی معاہدہ طے پاگیا اور ترکی نے بھی لیبیا میں فوج بھیجنے پر اتفاق کیا۔ ترکی کے اس اقدام کے خلاف عالمی سطح پر اور پڑوسی ملکوں نے اعتراض کیاہے - لیبیا کے بحران میں شدت / دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں میں تیزی آنے، علاقے میں ان کے پھیل جانے، تیل اور گیس کی سپلائی منقطع ہونے اور توانائی کی منڈی پر اس کے منفی اثرات مرتب ہونے کا باعث بنی ہے- اسی طرح انسانی اسمگلروں کی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے اور یورپ اور دیگر علاقوں کی جانب غیرقانونی ہجرت کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے-
یہ تمام تر صورتحال اس بات کا سبب بنی ہے کہ لیبیا کے بحران کو سیاسی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے اور جھڑپوں کو روکے جانے کے لئے عالمی کوششوں میں تیزی لائی گئی ہے- اسی سلسلے میں گذشتہ ہفتے، قومی وفاق حکومت اور خلیفہ حفتر کے درمیان عارضی جنگ بندی کے سمجھوتے پر دستخط ہونا طے پائے تھے تاہم عالمی توقعات کے باوجود خلیفہ حفتر نے جنگ بندی کے سمجھوتے پر دستخط سے انکار کردیا- اس وقت بھی برلن کانفرنس ایسی حالت میں منعقد ہوئی ہے کہ اس میں فائزالسراج اور خلیفہ حفتر شریک نہیں تھے اور کل بھی طرابلس پر خلیفہ حفتر کی فورسیز کے حملے جاری رہے-
برلن میں ایک طویل عرصےسے زیرالتوا چوٹی کانفرنس کے بعد صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینٹونیو گوٹرش نے کہا ہے کہ اتوار کو ہونے والا معاہدہ ایک سیاسی عمل کو آگے بڑھائےگا اور یہ جنگ کےلئے ایک حل ہوگا۔ مرکل کا کہنا تھا کہ لیبیا میں جنگ بندی کی حمایت کرنے کے وسیع منصوبے کے تحت ہم ایک معاہدے پر متفق ہوئےہیں۔ حالانکہ انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ لیبیا میں امن قائم کرنے کاراستہ بےحد لمبا اور مشکل ہوگا۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل آنٹونیو گوترش نے بھی اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ لیبیا کی موجودہ صورتحال سے علاقائی کشیدگی میں اضافے کا خطرہ بڑھ گیا ہے ، لیبیا کی جھڑپوں میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر شریک تمام فریقوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جھڑپوں کے خاتمے کے لئے کوششیں بروئے کار لائیں-
اس وقت برلن کانفرنس کے تمام شرکا نے اس بات پر زور دیا ہے کہ لیبیا میں متصادم دھڑوں کی، کوئی بھی ملک حمایت نہیں کرے گا- شرکاء کانفرنس نے سفارتی راہ حل کے حصول پر تاکید کی ہے ، تاہم ایسا نہیں سمجھا جاتا کہ اس طرح کی کانفرنسوں اور اجلاسوں سے لیبیا کے بحران کے حل میں مدد مل سکےگی-
لیبیا کی جیوپولیٹیکل پوزیشن ، اس ملک میں غیر ملکی مداخلتیں اور بعض گروہوں اور پڑوسی ملکوں کے مفادات ہی، لیبیا میں امن و سلامتی کے قیام کی راہ میں اہم ترین رکاوٹیں ہیں- اسی بنا پر اس ملک میں اقتدار کی جنگ جاری ہے- مگریہ کہ لیبیا کے سیاسی و فوجی گروپس ، اقتدار کی لالچ اور اپنے مفادات پر اپنے ملک کی مصلحتوں اور قومی مفادات کو ترجیح دیں اور خود ہی اس ملک کے بحران کے حل کا طریقۂ کار تلاش کریں-