غیر ملکی فوجیوں کی بربریت پرافغانستان کے انسانی حقوق کمیشن کی تنقید
افغانستان کے انسانی حقوق کمیشن نے اس ملک میں غیر ملکیوں کے ہوائی حملوں میں عام شہریوں کے قتل عام پر کڑی نکتہ چینی کی ہے-
افغانستان کے آزاد انسانی حقوق کمیشن (AIHRC) نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ اس کمیشن کی تحقیق کی بنیاد پر صوبہ ہرات کے ضلع شینڈنڈ پر نیٹو فوجیوں کے ہوائی حملوں میں پندرہ عام شہری ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں کہ جن میں تین عورتیں اور تین بچے بھی شامل ہیں جبکہ زخمیوں میں بھی دو بچے شامل ہیں- افغانستان کے انسانی حقوق کمیشن کے بیان میں غیرملکی فوجیوں کے ہاتھوں جنگ کی بھینٹ چڑھنے والوں کی تعداد میں اضافے اور انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی پر تشویش ظاہر کی گئی ہے اور غیر ملکی فوجیوں سے عام شہریوں کا قتل عام روکے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے-
واضح رہے کہ غیرملکی فورسیز نے صوبہ ہرات کے ضلع شینڈنڈ پر آٹھ جنوری کوفضائی حملہ کیا تھا- غیرملکی فوجیوں کے ہوائی حملوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنائے جانے پر افغانستان کے انسانی حقوق کمیشن کے اس تنقیدی بیان کی وجہ، امریکہ اور نیٹو کے ساتھ کابل کے سیکورٹی معاہدے کا ہونا ہے کہ جس کے مطابق غیر ملکی فوجیوں کے مشن کی مدت 2014 میں ختم ہوچکی ہے اور غیر ملکی فوجیوں کو افغانستان میں دہشت گردی مخالف کاروائیوں میں اس ملک کی حکومت سے ہم آہنگی اور درخواست کے بغیر شمولیت کی اجازت نہیں ہے-
گذشتہ پانچ برسوں کے دوران افغانستان میں تعینات میں غیر ملکی فوجیوں نے بارہا اس ملک کی اجازت کے بغیر دہشت گردی سے مقابلے کے بہانے، افغانستان کے مختلف علاقوں پر اپنے خودسرانہ ہوائی حملے کئے ہیں اور عام شہریوں کو موت کے منھ میں بھیج دیا ہے- البتہ افغانستان میں عام شہریوں پر زمینی اور فضائی حملے اٹھارہ سال سے زائد عرصے سے جاری ہیں جو اس ملک میں بدامنی میں شدت آنے پر منتج ہوئے ہیں کہ جس میں آخر کے پانچ برسوں میں، کہ جس میں ان فوجیوں کو حکومت کی اجازت کے بغیر کسی قسم کی کاروائی کی اجازت نہیں ہے، ماضی سے زیادہ افغان عوام میں ان غاصبوں سے نفرت میں اضافہ کیا ہے-
ان برسوں میں غیر ملکی فوجیوں کے ہاتھوں عام شہریوں کے قتل عام کی متعدد وارداتیں انجام پائی ہیں ، جو اس بات کا باعث بنی ہیں کہ فوجداری عدالت نے، ان کے جنگی جرائم کی تحقیقات کے لئے میدان میں قدم رکھا، تاہم امریکی دباؤ کے سبب ان جرائم کی تحقیقات کا عمل ٹھپ پڑگیا ہے-
افغانستان کے عام شہریوں کے قتل عام سے متعلق امریکہ اور نیٹو کے متعدد کیسز منجملہ قندھار قتل عام کیس ہے کہ جس پر اس ملک میں وسیع ردعمل سامنے آیا ہے-
یہ کیس کہ جس کے سبب امریکہ جنگی جرائم کی فہرست میں قرار پایا ، ایک امریکی فوجی رابرٹ بیلز کا دہشت گردانہ اقدام تھا کہ جس نے گیارہ مارچ 2012 میں صوبۂ قندھار کے ضلع پنجوائی میں سترہ عام شہریوں کو گولیاں مارکر ہلاک کردیا تھا اور ان کی لاشوں کو نذر آتش کردیا تھا۔ اس دہشت گرد امریکی فوجی کے جارحانہ اقدام پر افغانستان میں وسیع ردعمل ظاہر کیا گیا-
ایسی حالت میں افغانستان کے آزاد انسانی حقوق کمیشن نے اس ملک میں غیر ملکی فوجیوں کے توسط سے عام شہریوں کا قتل عام روکے جانے کا مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ اور نیٹو نے گذشتہ اٹھارہ سال سے زائد عرصے سے کبھی بھی افغان عوام کی جانوں کی تحفظ کے تعلق سے حکومت کےمطالبات پر توجہ نہیں دی ہے بلکہ بین الاقوامی قانونی اداروں منجملہ عالمی فوجداری عدالت کے ججوں پر بھی پابندی لگانے اور ان کو امریکہ میں داخل ہونے کے لئے ویزا نہ دینے کی دھمکی دی ہے-
افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بارے میں ٹرمپ کے متضاد مواقف اور پھر اپنے دہشت گرد فوجیوں کو افغانستان میں باقی رکھنے کے اس کے موجودہ موقف کے پیش نظر، پہلے مرحلے میں امریکہ کے صحیح موقف کا اندازہ نہیں ہوپا رہا ہے اور ساتھ ہی اس امر کی بھی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ امریکہ کے اندر ، امریکی فوجیوں کو افغانستان میں باقی رکھنے کے بارے میں ٹرمپ اور انتظامیہ کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے- اس وقت دہشت گرد امریکی فوجی، بدستور افغانستان میں موجود ہیں اور یہ مسئلہ وائٹ ہاؤس کے فیصلوں پر امریکہ کے حکومتی ڈھانچے کے غلبہ پانے کی علامت ہے اور اس طرح یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے افغانستان میں امریکی فوجیوں کے موجودگی کی مدت بھی نامعلوم ہے- اگرچہ ٹرمپ مجبور ہیں کہ امریکہ میں نومبر 2020 کے صدارتی انتخابات میں کامیابی کے لئے غیر ملکی سطح پر کچھ کامیابیاں حاصل کریں اور اپنی امیج کو اچھی بنائیں اسی بنا پر مسلمہ طور پر افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا بھی ان ہی مسائل میں سے ایک ہوگا-
خیال رہے کہ امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے سن 2001 میں دہشت گردی سے مقابلے کے بہانے افغانستان پرحملہ کردیا تھا لیکن مغربی فوجیوں کی موجودگی سے اس ملک میں بدامنی ، تشدد، منشیات کی پیداوار اور غربت میں اضافے کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوا ہے -